مضمون: راکھ میں دبی چنگاری اور غزہ کے مسلمان


مضمون نگار: رانا ضیاءجاوید جوئیہ 
قارئین گرامی ہم سب غزہ کی سنگین صورتحال سے بخوبی آگاہ ہیں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک کم از کم 33000 فلسطینی مسلمان شہید ہو چکے ہیں جس میں 9000 خواتین بھی شامل ہیں اور 60000 سے زائد شہری شدید زخمی بھی ہیں جن کے علاج کے لئے موجود 36 ہسپتالوں میں سے 24 ہسپتال عالمی ادارہ صحت کے مطابق مکمل طور پر بند ہو چکے ہیں جبکہ باقی 12 بھی نہ ہونے کے برابر کام کر پا رہے ہیں رفح جہاں پر 20 لاکھ کے قریب مسلمان محصور ہیں وہاں پر بھی شدید بمباری جاری ہے اور بچوں اور خواتین کا ہر روز شہید ہونا عالمی انسانی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے اور اب تو صورتحال یہ ہے کہ اسرائیل نے رفح کی طرف ایک باقاعدہ عسکری پیش قدمی کا منصوبہ بنا لیا ہے جس حوالے سے اسرائیل کے اتحادی ملک برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون کو بھی یہ کہنا پڑا ہے کہ اسرائیل اس منصوبے پر نظر ثانی کرے ۔
قارئین گرامی فروری 2024 میں بھی الجزائر نے جب جنگ بندی کی قرارداد اقوام متحدہ میں پیش کی تو امریکہ نے اس قرارداد کو بھی ویٹو کر دیا اور امریکہ کی طرف سے حالیہ تناظر میں تیسری دفعہ ایسی قرارداد کو ویٹو کیا گیا ہے اس سے ہمیں یہ بات سمجھ جانا چاہئے کہ اسرائیل تو ایک طرف امریکہ سمیت ہمارے تمام دشمن صرف ایک ہی بات چاہتے ہیں کہ فلسطین سے مسلمانوں کا نام و نشان تک مٹا دیا جائے اور انہیں وہاں سے جبری بے دخل کر دیا جائے سپین میں جس طرع مسلمانوں کو ختم کیا گیا اب امریکہ اور اسرائیل فلسطین کے حوالے سے بھی اسی تاریخ کو دہرانا چاہتے ہیں ۔
اس حوالے سے میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اسرائیل کی کھلی جارحیت کو جنگ کا نام دینا بھی مغربی میڈیا کی بدمعاشی ہے کیونکہ یہ جنگ نہی ہے یہ تو اسرائیل کی طرف سے نہتے مسلمانوں کی نسل کشی کی کوشش ہے جو ہماری امت مسلمہ کی بے حسی کی وجہ سے کامیابی سے جاری ہے لیکن اسرائیل اور امریکہ کو ہمیں یہ بتا دینا چاہئے کہ اگر اسرائیل باز نہ آیا تو پھر امت مسلمہ ایک امت کے طور پر جب اس نسل کشی اور جارحیت کو روکنے کے لئے میدان عمل میں آئے گی تو پھر یہ خوفناک ترین تیسری عالمی جنگ میں تبدیل یو جائے گی اس لئے اسرائیل اور امریکہ کو ہوش کے ناخن لے لینا چاہئے اور ہمارے میڈیا کو بھی اس سلسلہ میں کبھی اسے جنگ نہی کہنا چاہئے کیونکہ نہتے شہریوں پر کھلی جارحیت جنگ نہی ہوتی ۔
قارئین گرامی غزہ کی صورتحال تو ہم سب کے سامنے ہے لیکن صحیح معنوں میں میڈیا پر مکمل مغربی کنٹرول کی وجہ سے ابھی تک ہمیں حالات کا صحیح اندازہ نہی ہے کیونکہ وہاں غزہ میں نہ تو شہری محفوظ ہیں ' نہ ہی انہیں علاج کی سہولیات میسر ہیں اور نہ ہی انہیں خوراک حاصل ہے اور نہ ہی انہیں چھت حاصل ہے اس سلسلہ میں ہماری خاموشی اسرائیل کو مزید جارحیت کی کھلی چھٹی دے رہی ہے اور وہ اب رفح کی طرف باقاعدہ عسکری پیش قدمی کا پروگرام بنا رہا ہے ان حالات میں ہمیں جاگنا بھی ہو گا اور جگانا بھی ہو گا۔
قارئین گرامی امت مسلمہ میں ایمان راکھ میں دبی چنگاری کی طرع موجود ضرور ہے ماضی میں جب اتنی سہولیات حاصل نہی تھیں تو لوگ آگ کی راکھ میں دبی چنگاری سے مدد لے کر پورے محلے کے گھروں میں پھر سے آگ جلا لیتے تھے اب ہمیں بھی ضرورت اسی بات کی ہے کہ راکھ میں دبی ہوئی چنگاری سے کام لیا جائے اور پوری امت مسلمہ کو جگا دیا جائے آجکل ویسے بھی رمضان چل رہا ہے اور ہم مسلمان روزے رکھتے ہیں جو ہمارے ایمان کا مظہر ثبوت ہیں کہ جب ہمیں بظاہر کوئی بھی دیکھ نہی رہا ہوتا ہم تب بھی کچھ نہی کھاتے پیتے کیونکہ ہمارے اندر یہ یقین موجود ہے کہ ہمیں اللہ کریم دیکھ رہے ہیں غزہ کے حوالے سے ہمیں چند کام کرنے کی فوری ضرورت ہے اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے ۔
سب سے پہلے تو فوری طور پر ایک اسلامی سربراہی کانفرنس بلائی جائے جس کے بعد پوری دنیا کو یہ بتا دیا جائے کہ اگر اسرائیل مظالم اور جارحیت سے باز نہی آتا تو پھر پوری امت مسلمہ اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ اسرائیل کو جارحیت سے بزور طاقت روکنے کے لئے حرکت میں آ جائے گی اور اقوام متحدہ نے بھی اگر اپنا کردار ادا نہ کیا تو پھر دنیا کے 157 اسلامی ممالک اس نام نہاد مردہ قراردادوں کے عجائب گھر کو باقاعدہ طور پر چھوڑ دیں گے اس کے علاوہ اسی اسلامی سربراہی کانفرنس میں یہ فیصلہ لیا جائے کہ پوری امت مسلمہ کے تمام ممالک میں اسرائیلی پروڈکٹس کا داخلہ آفیشلی ممنوع کر دیا جائے گا اگر تمام اسلامی ممالک حکومتی سطح پر اسرائیلی پراڈکٹس کا داخلہ اپنے اپنے ممالک میں بند کر دیں تو یقینی طور پر اسرائیل اپنی موت آپ مر جائے گا۔
اسلامی ممالک کے میڈیا کو بھی مغربی میڈیا کے پروپیگنڈے کا موثر جواب دینے کی حکمت عملی بنانا چاہئے اور پوری دنیا کو یہ بتانا چاہئے کہ غزہ میں جنگ نہی ہے بلکہ نسل کشی ہے اور جنگ اگر ہو گئی تو پھر اسرائیل کا مقابلہ امت مسلمہ کرے گی اور پھر پوری دنیا کو تباہ ہونے کا خدشہ لاحق ہو جائے گا ۔
قارئین گرامی ہم قطعی کمزور نہی ہیں ہاں بے حس ضرور ہیں لیکن ایک موثر مہم جب ہماری بے حسی کو ختم کر دے گی تو پھر اسرائیل تو کیا دنیا کے کسی بھی ملک کو دنیا میں موجود کسی ایک بھی مسلمان پر ظلم کرنے کی ہمت نہی ہو گی تو آئیے اے امت مسلمہ ہم اس رمضان المبارک کے دوران ایک بھرپور مہم چلائیں ہم میں سے جو لکھ سکتا ہے وہ لکھے جو بول سکتا ہے وہ بولے اور سب لوگ اسرائیلی پراڈکٹس کا مکمل بائیکاٹ کریں اور اپنی اپنی حکومتوں پر اتنا پریشر ڈالیں کہ وہ غزہ کے مسلمانوں کی جبری بے دخلی اور نسل کشی پر اپنی خاموشی کا روزہ توڑنے پر مجبور ہو جائیں اور یقین مانئے جب خاموشی کا یہ روزہ امت مسلمہ نے توڑا تو پھر نہ صرف غزہ کے مسلمانوں کی سلامتی کا تحفظ یقینی ہو جائے گا بلکہ دنیا بھر کے تمام مقہور و مجبور مسلمان مکمل طور پر محفوظ ہو جائیں گے
ہمیں یہ بات اپنے ذہنوں میں پھر سے بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ مسلمان ایک امت ہیں اور ایک جسم کی مانند ہیں اگر جسم کے کسی بھی حصے میں درد ہو تو جس طرع وہ سارے جسم میں محسوس ہوتا ہے بالکل اسی طرع ہمیں غزہ کے مسلمانوں کے درد کو اپنے درد کے طور پر محسوس کرنا ہے اور پھر اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لاتے ہوئے اس درد کا علاج بھی کرنا ہے ان شائ اللہ جب ہم اس درد کو محسوس کر کے اس کے علاج کے لئے اپنی توانائیاں صرف کریں گے تو پھر اسرائیل تو کیا دنیا کی تمام غیر مسلم طاقتیں مل کر بھی ہمارے کسی ایک بھی مسلمان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرنے سے پہلے ہزار دفعہ نہی بلکہ کڑوروں مرتبہ سوچیں گی۔

ای پیپر دی نیشن