مارچ کا مہینہ ہماری سیاست میں گزشتہ کئی سالوں سے اہمیت اختیار کئے ہوئے ہے، مارچ کے لانگ مارچ ،پھر عدم اعتماد۔ اور اس بار بھی مارچ فی الواقع اہم اور فیصلہ کن ثابت ہوا۔ مہینے کے پہلے ہفتے میں ملک کے نئے سربراہ حکومت کے انتخاب ہوا اور دوسرے ہفتے کے آغاز میں سربراہ مملکت کا چناو۔ تمام تر خدشات، تنازعات اور الزامات کے باوجود ملک میں نئی حکومت قائم ہوگئی۔ نگران حکومت سے نومنتخب حکومت کو اقتدار کی منتقلی کا عمل بخیر و خوبی مکمل ہوگیا۔ تحریک انصاف جو اب سنی اتحاد کونسل کہلائی جانے لگی ہے اس کے قائدین بھی اب ذہنی طور پر تسلیم کرچکے ہیں کہ جو ہونا تھا وہ ہوگیا۔ اب کچھ نہیں ہونے والا ، دھاندلی، فارم 45 ، 47 کا شور ،ڈیڑھ سو نشستوں کا دعوی ،نہیں مانتے کی رٹ۔ یہ سب چلتا رہے گا لیکن انہیں احساس ہوچکا ہے کہ ان کے ساتھ جو کچھ ہوا اس میں ان کی اپنی بھی بہت غلطیاں بلکہ کچھ تو بڑی غلطیاں یعنی بلنڈر ہیں جس کا اب اعتراف کیا جانے لگا ہے۔ اور اس بارے میں پارٹی کے اندر ہونے والی بحث اور تنقید اب باہر بھی آنا شروع ہوگئی ہے۔ لیکن پی ٹی آئی کے حوالے سے مثبت بات یہ ہے کہ اب انہوں نے بڑی حد تک جان لیا ہے کہ جو لڑائی پارلیمان اور نظام کے اندر رہ کر لڑی جاسکتی ہے وہ باہر ممکن نہیں یہ اور بات ہے کہ یہ تجربہ انہوں نے بڑی غلطیاں کر کے اور ان کی بھاری سیاسی قیمت ادا کر کے حاصل کیا۔
بہرحال دیر آید درست آید، تحریک انصاف ہمارے موجودہ سیاسی نظام کی ایک حقیقت ہے جسے سب مانتے ہیں۔ لیکن انہوں نے اپنے ہی غلط اور جذباتی فیصلوں سے خود کو اس سیاسی نظام سے الگ تھلگ کرلیا تھا جس کی بار بار نشاندہی کی جاتی رہی لیکن وہ اسے اپنی کامیاب حکمت عملی قرار دیتے رہے۔ خیبر پختونخواہ میں علی امین گنڈا پور حکومت کے قیام کے بعد ایسے تاثر اور خدشات کا اظہار کیا جارہا تھا کہ صوبے اور مرکز کے درمیان محاذ آرائی بڑھے گی لیکن گزشتہ دنوں وزیر اعظم اور وزیر اعلی کے پی کے کے درمیان ملاقات اور اس کے بعد سامنے آنے والے مثبت بیانات نے محاذ آرائی کے خدشات کو ختم نہ سہی کم ضرور کردیا۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا چیلنج کمزور معیشت کو سہارا دینا ہے جس کیلئے کسی بڑے سے بڑے معاشی دماغ کے پاس بھی آئی ایم ایف کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں۔ اس میں اہمیت صرف آئی ایم ایف سے ملنے والی رقم کی نہیں بلکہ اس کریکٹر سرٹیفیکیٹ کی ہے جو آئی ایم ایف کے پروگرام کی منظوری کی صورت میں مل جاتا ہے اور اس کریکٹر سرٹیفیکیٹ کے ذریعے دنیا بھر سے امدادی رقوم کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ نئی حکومت کی نئی معاشی ٹیم پر امید ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات کامیابی سے طے ہوجائیں گے اور صورتحال بہتری کی جانب بڑھے گی، پاکستان کی نومنتخب حکومت اور اس میں شامل تمام سیاسی جماعتیں اور اسٹیبلشمنٹ اس بات پر متفق ہے کہ اب اگر کوئی ایک چیز ہے جس پر فوکس کرنا ہوگا تو وہ ہے معیشت ۔ اور معاشی استحکام کیلئے سیاسی استحکام ضروری ہے۔ سیاسی استحکام کیلئے ملک میں انتخابات کے ذریعے اقتدار کی منتقلی اہم ترین مرحلہ تھا جو مکمل کرلیا گیا ہے۔ جیسے تیسے بھی سہی، حکومتی اتحاد کو اسمبلی میں دو تہائی اکثریت مل گئی ہے۔ سینیٹ میں بھی حکمران اتحاد کی واضح اکثریت بننے جارہی ہے۔ صوبوں میں بھی مضبوط حکومتیں قائم ہوچکی ہیں۔ اب کام اس نظام کو چلانا ہے اور ہمارے بہت سے مسائل کا حل،آج گیا، کل گیا، کی غیر یقینی کو ختم کرتے ہوئے نظام کو چلانے میں ہے۔ سیاسی نظام پر اعتماد سرمایہ کاروں کے معیشت پر اعتماد کیلئے ضروری ہے۔ اس وقت صرف ایک جماعت ہے جو ماضی کی غلطیوں کے ادراک کے باوجود خود کو اس نظام کے اندر سمونے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی سیاست کا بیانیہ ہی باقی سب کو برا کہہ کر خود کو واحد حل قرار دینا ہے اور اگر وہ ان کے ساتھ مل بیٹھتے ہیں تو ان کا بیانیہ تو گیا ،سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ملک کسی نئے انتخاب کا متحمل تو ہو ہی نہیں سکتا۔ باقی رہا مینڈیٹ واپس کرنے کا مطالبہ تو ایک سو پچاس یا ایک سو اسی سیٹیں کوئی ویسے ہی تو آپ کو اٹھا کر نہیں دے دے گا۔ یہ لینے کیلئے عدالتوں میں ثابت کرنا ہوگا کہ واقعی یہ آپ کا مینڈیٹ ہے ،جو ہوتا خود آپ کو بھی دکھائی نہیں دیتا اور اگر آپ وقت سے پہلے کوئی تبدیلی چاہتے ہیں تو آپ لاسکتے ہیں پارلیمان کے اندر سے،ویسے ہی جیسے آپ کیخلاف اپریل 2022ء میں آئی تھی۔ اور یقین جانیں اگر آپ ایسی عدم اعتماد والی تبدیلی لائیں گے تو سب اسے تسلیم کریں گے کوئی اسے امریکی سازش قرار نہیں دے گا لیکن اس کیلئے آپ کو سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہی بیٹھنا ہوگا تو انتظار کرلیں۔ مثبت سیاست اور اپوزیشن کرلیں۔ اگر موجودہ نظام اور حکومت کچھ کر پائی تو ملک کا فائدہ ہوگا اور نہ کرپائی تو آپ کا سیاسی فائدہ تو ہوگا ہی۔ تو برداشت کرلیں صبر سے کام لیں کیونکہ نظام تو چلانا ہی ہوگا۔ بھلا دوسرا کوئی راستہ ہے؟۔
کوئی دوسرا راستہ ہے؟
Mar 19, 2024