رشید ملک ۔۔۔
8اکتوبر2005ء کے قیامت خیز زلزلہ میں بالا کوٹ‘ مظفر آباد‘ باغ بالا کوٹ میں وسیع پیمانے پر تباہی اور بربادی ہوئی تھی۔ اس وقت کے آزاد کشمیر کے وزیراعظم سردار سکندر حیات نے اپنے دل کے گہرے کرب کو ایک جملہ میں بیان کر دیا تھا۔ میں قبرستان کا وزیراعظم ہوں…ع
میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
اس قبرستان کی سی خرابی میں تعمیر کی صورت پانچ سال گزر جانے کے بعد بھی پیدا نہیں ہوئی۔ ترکی ‘ جاپان‘ جرمنی‘ متحدہ عرب امارات‘ سعودی عرب کی حکومتوں یا ان کے نجی اداروں اور کمپنیوں کی طرف سے کچھ پلازے ‘ ایک بڑا ہسپتال‘ یونیورسٹی کا شہر میں کیمپس‘ عثمانیہ مسجد‘ نیشنل لائبریری ملازمین کی رہائش گاہیں‘ تعمیر کی گئی ہیں لیکن جس وسیع پیمانے پر تباہی اور ویرانی چھا گئی تھی اس کے مقابلے میں تعمیراتی کام آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ پاکستان کی حکومت کی طرف سے ایک بڑا ادارہ ایرا قائم کیا گیا تھا۔ بیرونی امداد فنڈز اس ادارہ کی تحویل میں ہیں۔ اس کی پالیسی کونسل کے چیئرمین وزیراعظم پاکستان ہیں۔ تباہ شدہ علاقوں سے متعلقہ ادارے منصوبے تیار کر رہے ہیں۔ اس کونسل میں منظوری کیلئے بھیجے ہیں۔ کونسل اپنے فنڈز یا ڈونر ممالک سے رابطے قائم کر کے انکے ذریعے منصوبے تکمیل کروا رہی ہے۔ اس عمل میں بڑا وقت لگ جاتا ہے۔ ایرا نے دیہات میں تعلیمی ادارے ‘ طبی مراکز‘ کچھ سڑکیں اور کچھ پینے کے پانی منصوبے مکمل کرائے ہیں۔ ان کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق 4200منصوبوں میں سے اب تک غالباً 1200مکمل کئے گئے ہیں۔ مظفر آباد میں انگلیوں پر گنے جانے والے منصوبوں کے سوا تعمیر نو کی تصویر ابھرتی نظر نہیں آتی۔ خود مظفر آباد پر دارالحکومت کا اعزاز باعث ننگ و شرمندگی ہے۔
ابھی تک نہ ایوان صدر اور نہ وزیراعظم ہائوس بن سکا ہے۔ ہزاروں متاثرین زلزلہ کو پونے دو لاکھ روپیہ فی خاندان کی امدادی رقم دے کر انہیں چھوڑ دیا گیا ہے۔ دیہاتیوں نے ہمت کر کے اس امدادی رقم سے سادہ سے سٹائل اور گنجائش کے مکانات تعمیر کر لئے ہیں۔ شہروں میں پونے دو لاکھ روپے سے ایک کمرہ نہیں بن سکتا چنانچہ اجڑے ہوئے شہری سفید پوش ابھی تک سعودی عرب کے فراہم کردہ شیلٹروں میں رہ رہے ہیں۔ زلزلہ کی تباہ کاری سے مظفر آباد شہر کے پہلو میں دریائے نیلم کے دائیں کنارے پر سینکڑوں کنال اراضی پر تعمیر شدہ‘ آزاد جموں و کشمیر کو یونیورسٹی کا وسیع کیمپس بھی شکست و ریخت کا شکار ہو گیا۔اس کیمپس کا ڈھانچہ کھڑا ہے لیکن رہائش و استعمال کے قابل قرار نہیں دیا گیا۔
سعودی عرب کی حکومت نے جنوری 2006ء میں زلزلہ کی تباہی کے چار ماہ بعد یہ پیشکش کی تھی کہ وہ 2ارب روپے کی لاگت سے آزاد جموں و کشمیر یونیورسٹی کا وسیع کیمپس تعمیر کر کے دیگی۔ انہوں نے اس کیمپس کیلئے مظفر آباد کوہالہ ‘ سڑک پر 20کلومیٹر کے فاصلہ پر ایک کھلے رقبہ چھتر کلاس کو پسند کیا تھا اور 2000کنال اراضی کا مطالبہ کیا تھا۔ جس کا وہ معاوضہ بھی ادا کر ہے تھے۔ پانچ سال ہو چکے ہیں آزاد کشمیر کے حکمرانوں کی تلون فکر جس کے زور پر وہ ایک دیہات کے گوشہ میں یونیورسٹی کیمپس تعمیر کرنے پر مصر رہے ہیں۔ دو سال اسکی جگہ کے انتخاب کی کشمکش کی نذر ہو گئے ہیں۔
حکمرانوں نے بادل نخواستہ چھتر کلاس سے 778کنال اراضی دینے پر آمادگی ظاہر کی۔ سعودی عرب کی حکومت فنڈز بھی فراہم کر چکی ہے لیکن محکمہ مال کے اہلکاروں کے روایتی تاخیری حربوں کے باعث یہ اراضی آج تک ایرا اور یونیورسٹی کی انتظامیہ کے حوالے نہیں کی جا سکی۔ یونیورسٹی کا ڈیزائن نقشہ تخمینہ سب تیار ہے۔ پاکستان قومی اقتصادی کمشن نے منظوری بھی دیدی ہے۔
یونیورسٹی کیمپس کی لاگت کا تخمینہ اب 4ارب28کروڑ روپے کا ہے اور عظیم اور تعلیم کے اعلیٰ معیار کے کیمپس کی تعمیر میں حکمرانوں کی بے نیازی افسوس کا باعث ہے۔ کسی ذمہ دار حاکم نے یہ اراضی دلوانے کیلئے توجہ نہیں دی۔ راجہ ذوالقرنین صدر آزاد جموں و کشمیر جو یونیورسٹی کے چانسلر بھی ہیں اور فروغ علم کے امور میں دلچسپی بھی رکھتے ہیں‘ کی دلچسپی اور ہدایت بھی بے نیاز حکمرانوں اور بے حس ڈیموکریسی کو جگا نہیں سکی۔ یونیورسٹی کے نیک سیرت اور مجاہدانہ و مذہبی خاندانی پس منظر رکھنے والے بشیر احمد عباس ایڈیشنل رجسٹرار کمشنر مال سے لیکر پٹواری تک زورلگا کر ہانپ گئے ہیں لیکن اراضی ابھی تک ایرا یونیورسٹی کی انتظامیہ کے حوالے نہیں کی گئی۔ ذرا موازنہ کیجئے کہ سعودی عرب کے نیک دل اور مسلمانوں کے اتحاد‘ وقار اور ترقی کا خواب دیکھنے والے اور اس کیلئے متحرک شاہ عبداللہ نے جنوری 2006ء میں یونیورسٹی کا وسیع کیمپس بنانے کیلئے 2ارب روپے کی فراخدلانہ پیشکش کی تھی۔ یہ پیشکش یونیورسٹی کیمپس کی تمام تعلیمی فنی اور رہائشی ضروریات پوری کرنے کیلئے 4ارب 28کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔ فنڈز بھی ایرا کو منتقل ہو گئے ہیں۔ یونیورسٹی کے اس وسیع اور کثیر المقاصد کیمپس کے علاوہ ایک کیمپس راولا کوٹ میں ایک ارب23کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کیا جا رہا ہے۔ اس کیلئے 220کنال اراضی مل گئی ہے حکمرانوں کو کچھ تو احساس اور ضمیر کی اگر خلش محسوس ہوتی ہے تو سوچنا چاہئے کہ خادمِ حرمین شریف شاہ عبداللہ نے ہمارے ایک عظیم تعلیمی ادارے کیلئے جس سے ہماری نسلیں فیض یاب ہوتی رہیں گی۔ کس طرح کی پیشکش کر رکھی ہے اور ہم اس سے کیا سلوک کر رہے ہیں۔
8اکتوبر2005ء کے قیامت خیز زلزلہ میں بالا کوٹ‘ مظفر آباد‘ باغ بالا کوٹ میں وسیع پیمانے پر تباہی اور بربادی ہوئی تھی۔ اس وقت کے آزاد کشمیر کے وزیراعظم سردار سکندر حیات نے اپنے دل کے گہرے کرب کو ایک جملہ میں بیان کر دیا تھا۔ میں قبرستان کا وزیراعظم ہوں…ع
میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
اس قبرستان کی سی خرابی میں تعمیر کی صورت پانچ سال گزر جانے کے بعد بھی پیدا نہیں ہوئی۔ ترکی ‘ جاپان‘ جرمنی‘ متحدہ عرب امارات‘ سعودی عرب کی حکومتوں یا ان کے نجی اداروں اور کمپنیوں کی طرف سے کچھ پلازے ‘ ایک بڑا ہسپتال‘ یونیورسٹی کا شہر میں کیمپس‘ عثمانیہ مسجد‘ نیشنل لائبریری ملازمین کی رہائش گاہیں‘ تعمیر کی گئی ہیں لیکن جس وسیع پیمانے پر تباہی اور ویرانی چھا گئی تھی اس کے مقابلے میں تعمیراتی کام آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ پاکستان کی حکومت کی طرف سے ایک بڑا ادارہ ایرا قائم کیا گیا تھا۔ بیرونی امداد فنڈز اس ادارہ کی تحویل میں ہیں۔ اس کی پالیسی کونسل کے چیئرمین وزیراعظم پاکستان ہیں۔ تباہ شدہ علاقوں سے متعلقہ ادارے منصوبے تیار کر رہے ہیں۔ اس کونسل میں منظوری کیلئے بھیجے ہیں۔ کونسل اپنے فنڈز یا ڈونر ممالک سے رابطے قائم کر کے انکے ذریعے منصوبے تکمیل کروا رہی ہے۔ اس عمل میں بڑا وقت لگ جاتا ہے۔ ایرا نے دیہات میں تعلیمی ادارے ‘ طبی مراکز‘ کچھ سڑکیں اور کچھ پینے کے پانی منصوبے مکمل کرائے ہیں۔ ان کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق 4200منصوبوں میں سے اب تک غالباً 1200مکمل کئے گئے ہیں۔ مظفر آباد میں انگلیوں پر گنے جانے والے منصوبوں کے سوا تعمیر نو کی تصویر ابھرتی نظر نہیں آتی۔ خود مظفر آباد پر دارالحکومت کا اعزاز باعث ننگ و شرمندگی ہے۔
ابھی تک نہ ایوان صدر اور نہ وزیراعظم ہائوس بن سکا ہے۔ ہزاروں متاثرین زلزلہ کو پونے دو لاکھ روپیہ فی خاندان کی امدادی رقم دے کر انہیں چھوڑ دیا گیا ہے۔ دیہاتیوں نے ہمت کر کے اس امدادی رقم سے سادہ سے سٹائل اور گنجائش کے مکانات تعمیر کر لئے ہیں۔ شہروں میں پونے دو لاکھ روپے سے ایک کمرہ نہیں بن سکتا چنانچہ اجڑے ہوئے شہری سفید پوش ابھی تک سعودی عرب کے فراہم کردہ شیلٹروں میں رہ رہے ہیں۔ زلزلہ کی تباہ کاری سے مظفر آباد شہر کے پہلو میں دریائے نیلم کے دائیں کنارے پر سینکڑوں کنال اراضی پر تعمیر شدہ‘ آزاد جموں و کشمیر کو یونیورسٹی کا وسیع کیمپس بھی شکست و ریخت کا شکار ہو گیا۔اس کیمپس کا ڈھانچہ کھڑا ہے لیکن رہائش و استعمال کے قابل قرار نہیں دیا گیا۔
سعودی عرب کی حکومت نے جنوری 2006ء میں زلزلہ کی تباہی کے چار ماہ بعد یہ پیشکش کی تھی کہ وہ 2ارب روپے کی لاگت سے آزاد جموں و کشمیر یونیورسٹی کا وسیع کیمپس تعمیر کر کے دیگی۔ انہوں نے اس کیمپس کیلئے مظفر آباد کوہالہ ‘ سڑک پر 20کلومیٹر کے فاصلہ پر ایک کھلے رقبہ چھتر کلاس کو پسند کیا تھا اور 2000کنال اراضی کا مطالبہ کیا تھا۔ جس کا وہ معاوضہ بھی ادا کر ہے تھے۔ پانچ سال ہو چکے ہیں آزاد کشمیر کے حکمرانوں کی تلون فکر جس کے زور پر وہ ایک دیہات کے گوشہ میں یونیورسٹی کیمپس تعمیر کرنے پر مصر رہے ہیں۔ دو سال اسکی جگہ کے انتخاب کی کشمکش کی نذر ہو گئے ہیں۔
حکمرانوں نے بادل نخواستہ چھتر کلاس سے 778کنال اراضی دینے پر آمادگی ظاہر کی۔ سعودی عرب کی حکومت فنڈز بھی فراہم کر چکی ہے لیکن محکمہ مال کے اہلکاروں کے روایتی تاخیری حربوں کے باعث یہ اراضی آج تک ایرا اور یونیورسٹی کی انتظامیہ کے حوالے نہیں کی جا سکی۔ یونیورسٹی کا ڈیزائن نقشہ تخمینہ سب تیار ہے۔ پاکستان قومی اقتصادی کمشن نے منظوری بھی دیدی ہے۔
یونیورسٹی کیمپس کی لاگت کا تخمینہ اب 4ارب28کروڑ روپے کا ہے اور عظیم اور تعلیم کے اعلیٰ معیار کے کیمپس کی تعمیر میں حکمرانوں کی بے نیازی افسوس کا باعث ہے۔ کسی ذمہ دار حاکم نے یہ اراضی دلوانے کیلئے توجہ نہیں دی۔ راجہ ذوالقرنین صدر آزاد جموں و کشمیر جو یونیورسٹی کے چانسلر بھی ہیں اور فروغ علم کے امور میں دلچسپی بھی رکھتے ہیں‘ کی دلچسپی اور ہدایت بھی بے نیاز حکمرانوں اور بے حس ڈیموکریسی کو جگا نہیں سکی۔ یونیورسٹی کے نیک سیرت اور مجاہدانہ و مذہبی خاندانی پس منظر رکھنے والے بشیر احمد عباس ایڈیشنل رجسٹرار کمشنر مال سے لیکر پٹواری تک زورلگا کر ہانپ گئے ہیں لیکن اراضی ابھی تک ایرا یونیورسٹی کی انتظامیہ کے حوالے نہیں کی گئی۔ ذرا موازنہ کیجئے کہ سعودی عرب کے نیک دل اور مسلمانوں کے اتحاد‘ وقار اور ترقی کا خواب دیکھنے والے اور اس کیلئے متحرک شاہ عبداللہ نے جنوری 2006ء میں یونیورسٹی کا وسیع کیمپس بنانے کیلئے 2ارب روپے کی فراخدلانہ پیشکش کی تھی۔ یہ پیشکش یونیورسٹی کیمپس کی تمام تعلیمی فنی اور رہائشی ضروریات پوری کرنے کیلئے 4ارب 28کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔ فنڈز بھی ایرا کو منتقل ہو گئے ہیں۔ یونیورسٹی کے اس وسیع اور کثیر المقاصد کیمپس کے علاوہ ایک کیمپس راولا کوٹ میں ایک ارب23کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کیا جا رہا ہے۔ اس کیلئے 220کنال اراضی مل گئی ہے حکمرانوں کو کچھ تو احساس اور ضمیر کی اگر خلش محسوس ہوتی ہے تو سوچنا چاہئے کہ خادمِ حرمین شریف شاہ عبداللہ نے ہمارے ایک عظیم تعلیمی ادارے کیلئے جس سے ہماری نسلیں فیض یاب ہوتی رہیں گی۔ کس طرح کی پیشکش کر رکھی ہے اور ہم اس سے کیا سلوک کر رہے ہیں۔