آپریشن جیرونیمو پس منظر مقاصد اور مضمرات .... (۱)

May 19, 2011

سفیر یاؤ جنگ
بریگیڈیئر (ر) حامد سعید اختر
ایبٹ آباد میں امریکی دراندازی اور سینہ زوی کا واقعہ پیش آئے دو ہفتے ہونے کو آئے ہیں‘ قومی سلامتی کے ادارے اپنوں اور غیروں کی جانب سے ہدف تنقید ہیں۔ قوم اپنی سلامتی کے حوالے سے خدشات کا شکار ہے اور الیکٹرانک میڈیا کا ایک غیر ذمہ دار طبقہ اعتدال اور احتیاط کی تمام حدود عبور کر کے بھارتی اور امریکی ایجنڈے پر عملدرآمد کر رہا ہے۔ اس میں کچھ ایسے اینکرپرسن بھی شامل ہیں جنہیں گزشتہ سال امریکی سفارتخانے میں خصوصی دعوت دی گئی تھی جہاں وہ کالے امریکنوں سے بغل گیر ہو کر رقص و سرور میں اس طرح مدہوش ہو گئے کہ بعد میں انکی تصاویر انٹرنیٹ پر بھی جاری کر دی گئیں۔ بدقسمتی سے ان میں سے بیشتر کا تعلق طبقہ اناث سے تھا۔ پہلے یہ شخصیات وطن عزیز کیلئے ”سماوی“ آفات تھیں اور اب انہوں نے ”دنیاوی‘ عذاب کا روپ دھار لیا ہے۔ اگر امریکہ کے بیان کردہ حکومتی مقاصد کو پیش نظر رکھا جائے تو بہت سے حقائق واضح ہو جاتے ہیں۔ امریکہ کی حکومتی پالیسی کےمطابق ماضی میں تسلیم شدہ پانچ ممالک کے سوا جن ممالک کے پاس جوہری صلاحیت ہے اسے تین مراحل میں بتدریج ختم کیا جائےگا۔ (الف) دھماکہ خیز جوہری مواد کی پیداوار پر پابندی (ب) پہلے سے موجود ایٹمی ہتھیاروں کی تباہی (ج) ایٹمی پروگرام کا رول بیک یعنی پس قدمی اور جوہری صلاحیت کا مکمل خاتمہ!
اس اصول سے صرف بھارت کو استثنیٰ حاصل ہے‘ کیونکہ امریکہ بھارت کو چین کے مقابلے میں طاقتور بنانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ پاکستان کو جوہری صلاحیت سے محروم کرنے کے راستے میں پاک فوج اور آئی ایس آئی حائل ہے‘ لہٰذا ان اداروں کی تحلیل کے بغیر امریکہ اپنے قومی مقاصد حاصل نہیں کر سکتا۔ گزشتہ چند سال سے اسی پالیسی پر عمل ہو رہا ہے۔ بھارت کے ذریعے براستہ افغانستان تخریب کاری‘ بلوچستان میں بدامنی اور مزید صوبوں کے مطالبے کے ذریعے پاکستان کے حصے بخرے کرنا بھی اسی پالیسی کا حصہ ہے۔
چند سال قبل سابق امریکی فارن سیکرٹری کونڈالیزا رائس نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ہنگامی حالات میں پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کو تحویل میں لینے کا منصوبہ بنایا جا چکا ہے‘ لیکن ملکی مفاد میں اسکی تفصیلات افشا نہیں کی جا سکتیں۔ این آر او کے سائے میں بننے والی حکومت نے امریکہ کو بے پناہ سہولیات اور مراعات بہم پہنچائیں جسکی آڑ میں ہزاروں امریکی اہلکار پاکستان پہنچ گئے۔ سفارتی ویزے کیلئے آئی ایس آئی کی کلیئرنس کو بھی غیر ضروری قرار دیدیا گیا۔ سی آئی اے کے ان کارندوں نے پاکستان میں جاسوسی کا مو¿ثر نیٹ ورک پھیلا کر بہت سے حساس علاقوں میں پاکستانی ایجنسیوں کو غیر مو¿ثر بنا دیا‘ کیونکہ پاکستان کی ایجنسیاں ٹیکنالوجی اور معاشی وسائل میں امریکہ کی ہم پلہ نہ تھیں۔ جب پاکستان کی ایجنسیوں نے ان علاقوں پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کی تو امریکہ کےساتھ مفادات کا ٹکراﺅ ناگزیر ہو گیا اور تناﺅ میں اضافہ ہونے لگا۔ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے کیری لوگر بل کے ذریعے آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے تحت کرنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ اس بل کی دیگر شقوں کےخلاف بھی فوج نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا کہ یہ ملکی مفاد سے متصادم ہیں۔
اس موقع پر پریس کے ایک حصے نے فوج پر تنقید کی کہ فوج کو اپنا پریس ریلیز نہیں دینا چاہئے تھا‘ انہیں صرف حکومتی پالیسی پر عمل کرنا چاہئے۔ غنیمت ہے کہ سنجیدہ اخبارات نے فوج کے مو¿قف کی حمایت کی اور کسی حد تک باہمی مفاہمت کا راستہ نکل آیا۔
ریمنڈ ڈیوس کیس کے بعد حالات میں تیزی سے بگاڑ آیا‘ یہ ثابت ہو چکا تھا کہ ملزم درحقیقت امریکی جاسوس تھا جسے سفارتی تحفظ حاصل نہ تھا۔ بعض غیر مصدقہ اطلاعات کےمطابق مارے جانےوالے دونوں افراد انٹیلی جنس کے جونیئر اہلکار تھے اور ملزم نے اپنے تعاقب سے آگا ہونے پر انہیں قتل کر دیا۔ اس سے قبل افغانستان میں بھی منشیات کے کچھ بڑے مگرمچھ ایجنسیوں کی نظروں میں تھے جن کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ سی آئی اے کے پروردہ تھے اور انکی باہمی شراکت سے یہ غیر قانونی کاروبار جاری تھا۔ یہ پول کھلنے پر سی آئی اے کے مفادات پر ضرب پڑی اور آئی ایس آئی سے مخاصمت میں اضافہ ہو گیا۔ افغانستان میں بھارت کے درجنوں قونصل خانے کھلنے پر بھی پاکستان کے تحفظات اور اعتراضات کا ازالہ نہ کیا گیا۔ ریمنڈ ڈیوس والے واقعے کے بعد جنرل پاشا مذاکرات کیلئے تین روزہ دورے پر امریکہ گئے‘ پہلے ہی روز کی ملاقات میں سی آئی اے کے سربراہ لیون پینٹا نے بات چیت میں تحکمانہ انداز اختیار کیا‘ وہ نہ تو پاکستان میں اپنے ایجنٹوں کی فہرست فراہم کرنے پر رضامند ہوئے‘ نہ ہی انکی تعداد محدود کرنے کی حامی بھری اور نہ ہی ڈرون حملے بند کرنے کا عندیہ دیا۔ نتیجتاً یہ مذاکرات مکمل طور پر ناکام ہو گئے۔ تاہم جنرل پاشا نے بھی اپنے امریکی ہم منصب کو اسی لب ولہجے میں جواب دیا اور اسی روز پاکستان واپسی کیلئے روانہ ہو گئے۔ امریکہ کیلئے یہ بات ناقابل تصور تھی کہ پاکستان کا کوئی فوجی ذمہ دار آنکھیں دکھانے کی جرا¿ت کر سکتا ہے‘ لہٰذا اعلیٰ سطح پر پاکستان کو مزہ چکھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ایبٹ آباد کا آپریشن اسی پس منظر میں تشکیل پانے والے منظر نامے کا شاخسانہ ہے۔
آپریشن جیرونیمو کے متعلق جتنا مواد غیر ملکی پریس اور ٹیلی ویژن پر آ چکا ہے پاکستان میں اس کا عشیر عشیر بھی منظر عام پر نہیں آیا۔ زیادہ تر امکانات جو سامنے آئے ہیں انکے مطابق اسامہ کئی سال پیشتر تورا بورا میں مارا جا چکا تھا۔ بی بی سی کے مطابق یہ بھی ممکن ہے کہ اصلی اسامہ کسی امریکی تفتیشی مرکز میں زیر تفتیش ہو۔ جنرل اسلم بیگ اور بعض دیگر مبصرین کا خیال ہے کہ یا تو اسامہ کے کسی ہمشکل قیدی کو ایبٹ آباد لا کر قتل کر دیا گیا یا اسامہ کی پہلے سے محفوظ شدہ لاش کو لا کر ڈرامہ رچایا گیا۔ ان شبہات کو اس چیز سے تقویت ملتی ہے کہ ایک نہتے شخص کو مارنے کی کیا ضرورت تھی جسے بآسانی قیدی بنایا جا سکتا تھا اور اسکی تفتیش سے فائدہ بھی اٹھایا جا سکتا تھا؟ اسکے بعد جس عجلت سے اسکی میت کو معدوم کر دیا گیا‘ اس میں کیا مصلحت تھی؟ ان تمام مناظر کی ویڈیو جاری کرنے سے امریکہ کا انکار بھی مزید شکوک وشبہات کو جنم دیتا ہے۔ 15 مئی کی ایک خبر کے مطابق امریکی صدر نے آپریشن جیرونیمو میں حصہ لینے والے تمام افراد سے وائٹ ہاﺅس میں ملاقات کی جہاں ان سے تمام معاملات رازداری میں رکھنے کا حلف لیا گیا۔ فوجی تو ویسے ہی حلف کے پابند ہوتے ہیں۔ نامعلوم یہ خصوصی حلف کن معاملات کو خفیہ رکھنے کیلئے لیا گیا؟
اب آیئے مقامی معاملات کی جانب۔ ہمارے معصوم عوام کے جذبات سے کھیلنے والے سیاستدانوں کو یقینا علم ہو گا کہ افواج پاکستان بنیادی طور پر بھارت کی جانب سے جارحیت کے سدباب کی مکمل اہلیت رکھتی ہیں تاہم پاکستان نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ جدید ٹیکنالوجی سے مسلح امریکہ کو اپنا دشمن تصور کرتا ہے یا اسے ٹیکنالوجی کے میدان میں شکست دے سکتا ہے اگر آپ سے دوستی کا دعویٰ کرنےوالا ملک ہی رات کے اندھیرے میں آپ پر حملہ آور ہو جائے تو اسے انتہائی بدقسمتی ہی سمجھا جائےگا جس کے سدباب کی آئندہ کیلئے ضرورت ہے۔ جہاں تک اسامہ کی پاکستان میں موجودگی کا تعلق ہے تو آئی ایس آئی کی جانب سے اسامہ کی پاکستان میں موجودگی اور موت تسلیم کرنے کے بعد صرف دو امکانات باقی بچتے ہیں اول یہ کہ اگر اسامہ مارا جا چکا ہے تو اب تم یہاں کس لئے بیٹھے ہو؟ اپنے تمام ایجنٹوں کو پاکستان سے نکالو اور امریکہ سدھارو۔ راقم کی اطلاع کے مطابق معاملات اسی نہج پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ دو سال قبل اسی احاطے پر ابوالفراج اللیبی کی تلاش میں چھاپہ مارا گیا تھا جو ناکام رہا۔ اس وقت تو اسامہ یا اس کے بیوی بچے یہاں پر مقیم نہیں تھے۔ پھر یہ پانچ سالہ قیام کی حکایت کیسے درست ہو سکتی ہے؟ امکان ہے کہ اس چھاپے کے بعد اسامہ کی بیواﺅں اور بچوں کو یہاں ٹھہرایا گیا ہو کیونکہ یہ احاطہ شبہے سے بالا ہو چکا تھا۔
یہ تمام امکانات محض تجزےے کیلئے پیش کئے گئے ہیں۔ اگر اسامہ کی بیٹی اور بیواﺅں کا یقینی بیان اسکے برعکس ہے تو وہی بیان معتبر ٹھہرے گا۔ پاکستان میں اسامہ کا قیام کسی طور بھی پاکستان کے قومی مفاد سے ہم آہنگ نہیں تھا۔ اسامہ نے اندرون پاکستان بھی کئی دھماکے کرائے تھے‘ لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ فوج کی ہمدردی اسکے ساتھ ہوتی۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ کسی نچلے درجے کے اہلکار نے اپنے طور پر بالا ہی بالا یہ جذباتی فیصلہ کیا ہو۔ اس صورت میں متعلقہ شخص کی نشاندہی اور محاکمے سے فوج یقینا غافل نہیں ہو گی۔
دو مئی کے حملے کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کےمطابق حملے میں بلیک ہاک ہیلی کاپٹرز کی جدید ترین ساخت کے ہیلی کاپٹرز استعمال کئے گئے جو راڈارز کو جام بھی کر سکتے ہیں اور سٹیلتھ ٹیکنالوجی کی وجہ سے راڈار انکی موجودگی کی نشاندہی نہیں کر سکتے۔ اطلاعات کےمطابق آپریشن کے وقت علاقے کے تمام لائن اور موبائل فون بیکار ہو گئے تھے۔ (جاری )
مزیدخبریں