”راشن شاپ“ اور ”ایمپلائمنٹ ایکسچینج “ چاہیے

مکرمی! جعلی جمہوریت کے الیکشنوں سے کچھ بھی نہیں بدلے گا ”لُوٹو اور پُھوٹو“ کی پالیسی جاری رہے گی کیونکہ وہی خاندان اقتدار میں آ جائینگے جو پہلے تھے اور اپنی لوٹ مار جاری رکھیں گے، غریبوں کا پُرسان حال کوئی نہیں ہوگا غریب بھوکے مریں گے تو جرائم میں روز افزوں اضافہ ہوگا اور مجرموں کے بڑے بڑے گینگ بن جائیں گے۔ لوگوں کو اپنی تنخواہیں گھر لانا ناممکن ہو جائے گا اور عورتیں بازاروں میں خریداری کرنے سے توبہ کریں گی۔ بینکوں کے محافظ خود بینکوں کو لوٹیں گے جیسے کہ پہلے بھی لوٹتے رہے ہیں۔اب زیادہ لوٹیں گے، پولیس اور عدالتوں سے عوام پہلے ہی مایوس ہیں اب ان کی مایوسی میں اضافہ ہو گا وہ ڈکیتیوں کی پولیس میں رپورٹ لکھوانا بھی بند کر دیں گے کیونکہ پولیس ان کی کوئی مدد نہیں کر سکے گی۔ اس سلسلے میں چند تجاویز پیش کرتا ہوں۔ 1۔ عوام کیلئے آٹے، دال، چینی وغیرہ کی راشن شاپس قائم کی جائیں جیسی جنگ عظیم دوئم کے زمانے میں انگریزوں نے قائم کی تھیں جو پاکستان بننے کے بعد تک موجود تھیں اور ان شاپس کو انہیں خطوط پر چلایا جائے جن خطوط پر انگریز کی حکومت چلاتی تھی۔2۔ ایسی ہی سستے کپڑوں کی شاپس بھی کھولی جائیں ان دوکانوں میں بے شمار لوگوں کو روزگار ملے گا۔3۔ دفاتر روزگار (Employment Exchanges) کھولے جائیں جیسے انگریزوں کے زمانے میں کھولے گئے تھے اور پاکستان بننے کے بعد تک موجود تھے۔ 1948ءمیں خود راقم کو بھی پہلی ملازمت ایسے ہی ایک دفتر کے ذریعے ملی تھی۔ دفتر روزگار میں ایک سہولت یہ بھی ہونی چاہیے کہ جب تک روزگار فراہم نہ کیا جائے ”بیروزگاری الاو¿نس “ ملتا رہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آئے گا اس کا جواب بالکل آسان ہے۔ حکومت کرنسی کو بینکوں کے کنٹرول سے نکال کر اپنے کنٹرول میں لے اور عوام کی فلاح وبہبود کیلئے جتنی بھی ضرورت ہو چھاپے اور خرچ کرے۔ جب ملک میں ہر طرف خوشحالی ہو جائے گی تو بلٹ ٹرین یا زیر زمین ٹرینیں چلانے کا مرحلہ بھی آ جائیگا۔ اس وقت ایسے نعروں سے عوام کو بیوقوف بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ (ظفر عمر خاں فانی)

ای پیپر دی نیشن