”ایمنسٹی سکیموں نے خزانے کو نقصان پہنچایا“ چیئر مین ایف بی آر

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کے قوانین بہتر ہوتے جا رہے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اس بہتری میں پاکستان ٹیکس بار کے علاوہ لاہور ٹیکس بار کی پری بجٹ تجاویز کا حصہ بہت اہم ہے۔ آج بھی اس سلسلہ کی ایک اہم میٹنگ ہوئی جس کے مہمان خصوصی چیئر مین فیڈرل بورڈ آف ریونیو انصر جاوید اور پنجاب حکومت کے مشیر ضیاءرضوی تھے۔ اس موقع پر سیلز ٹیکس کے بارے میں ٹیکس تجاویز شاہد بیگ نے پیش کرتے ہوئے بتایا کہ سیلز ٹیکس کے کچھ قوانین کو آج کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض اوقات ایک ہی نوٹیفکیشن تین مختلف اداروں کی طرف سے جاری ہو جاتا ہے جس سے کنفیوژن پیدا ہو جاتا ہے۔ سیلز ٹیکس ریفنڈ کا سلسلہ کافی حد تک الجھا ہوا ہے سیلز ٹیکس ریفنڈ کے چیک فوری طور پر جاری کئے جائیں۔ ایک تو معیشت پہلے ہی لوڈ شیڈنگ ، گیس مینجمنٹ اور امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کی وجہ سے مشکلات میں گرفتار ہے تو دوسری طرف ایف بی آر ریفنڈ کیس فوری طور پر حل نہیں کر رہا۔ سیکشن 21کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔ ٹیکس کی جی ڈی پی بڑھانے کے لئے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔
انکم ٹیکس تجاویز محمد اویس نے پیش کیں اور کہا کہ IMF کے شکنجے سے نکلنے کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان کو معاشی بحران سے نکالا جائے اور صاف ظاہر ہے کہ دنیا کی طرح پاکستان کی حکومت کوچلانے کے لئے بھی رقم کی ضرورت ہے جو ٹیکس سے اکٹھی ہوتی ہیں لیکن ہمارا ٹیکس نیٹ چھوٹا ہے جسے وسعت دینے کی شدید ضرورت ہے۔ اس کے لئے میری تجویز ہے کہ دکانوں پر ٹیکس نمبر لکھا ہو، رسیدوں پر ٹیکس نمبر پرنٹ کیا جائے۔ ایل سی کھولنے کا رواج ختم ہو چکا ہے جس کی وجہ سے بہت سا ٹیکس غائب ہو جاتا ہے۔ لسٹڈ کمپنیوں کو فائدے نہیں دیئے جا رہے جس کی وجہ سے بہت سی کمپنیاں ڈی لسٹ ہونے جا رہی ہیں۔ حکومت پنجاب کے مشیر ضیاءرضوی نے کہا کہ آنے والی حکومت پر معیشت کو سنبھالنے کے سلسلے میں بہت اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ٹیکس کے معاملات اور کیس تیزی سے ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ٹیکس محتسب کے لئے پروفیشنل ٹیکس کمیونٹی سے کسی کا انتخاب کیا جائے یہ تھانوں کچہریوں کا کیس نہیں ہے کہ کسی پولیس افسر کو اس عہدے پر فائز کر دیا جائے۔ دوسرے اہم شعبوں پر بھی ماہرین کا انتخاب کرنا چاہیے۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئر مین انصر جاوید نے بہت اچھا خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے تمام سٹیک ہولڈرز کو خطوط روانہ کئے ہیں کہ بجٹ تجاویز بھی شامل ہوں اور آنے والے نئے بجٹ کے سلسلہ میں اپنی آرا ءاور تجاویز بھجوائیں۔ میں نے لاہور سے اپنی ملازمت کا آغاز کیا تھا اور دعا کریں کہ جب تک میں رہوں (30جون 2013ءتک ملازمت میں توسیع ہوئی ہے) پاکستان کی خدمت کرتا رہوں۔ آپ کی تجاویز بہت مفید اور قابل عمل ہیں، میں انہیں اپنے ساتھ لے کر جا رہا ہوںاور وہاں اپنی ٹیم کے حوالے کر دوں گا جو قابل عمل نکات کو جمع کرکے مجھے دیدے گی۔ زرعی آمدنی پر ٹیکس کا نفاذ صوبائی حکومتوں کو کرنا چاہیے۔
نوائے وقت سے بات کرتے ہوئے انصر جاوید نے بتایا ”ایمنسٹی سکیموں سے خزانے کو نقصان پہنچتا ہے اس لئے سابق چیئر مین ایف بی آر نے جو ایمنسٹی سکیم بنائی تھی جس کے تحت دس بیس ہزار روپے دے کر پہلی بار کوئی ٹیکس نمبر الاٹ کرا سکتا ہے ۔ ہم ایف بی آر میں نیشنل ڈیٹا بیس بنا رہے ہیں جہاں ٹھوس حقائق کی بنیاد پر ٹیکس لاگو کیا جائے گا ۔ اس سلسلہ میں اخبارات میں تشہیری مہم بھی چلائی جائے گی۔ کچھ تجاویز تھیں کہ مختلف اخراجات دیکھ کر ٹیکس نافذ کیا جائے لیکن نیشنل ڈیٹا بیس وجود میں آنے کے بعد ٹیکس نیٹ آٹو میٹک وسیع ہو جائے گا۔ ابھی تک تو میںنگران حکومت کی ہدایات کے مطابق کام کر رہا ہوں لیکن صاف ظاہر ہے کہ نو منتخب حکومت کی اپنی ترجیحات بھی ہوں گی۔ تمام چیمبرز، ایسوسی ایشن اور بجٹ سے دلچسپی رکھنے والوں کو چاہیے کہ وہ نئے بجٹ کے بارے میں اپنی تجاویز فیڈرل بورڈ آف ریونیو ضرور بھجوائیں۔ بعض اوقات ایک چھوٹی سی تجویز بھی حیرت انگیز نتائج پیدا کرکے دکھا دیتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن