بادل آیا گرجا برسا اور سیاسی موسم کو مزید حبس زدہ کرکے چلتا بنا۔ عمران خان، طاہر القادری، ق لیگ اور شیخ رشید کے جلسوں جلوسوں اور ریلیوں کی صدائے باز گشت کافی دنوں سے سننے کو مل رہی تھی اس دعوے کے ساتھ کہ 11 مئی کو ایک سونامی آئے گا اور سب کچھ بہا کر لے جائے گا، عوامی جذبات کی ایک اسلامی آندھی چلے گی کہ پورا نظام دھڑام سے زمین بوس ہوجائیگا اور فوری بعد فرشتوں کی حکومت قائم ہو جائے گی مگر ہم سب نے بادل کو گرجتے برستے ہوئے دیکھا اور سنا آندھی اور عوامی طوفان کو اپنا رنگ دکھاتے ہوئے بھی دیکھا مگر بعضوں کی طرف سے 11 مئی کو جو تصویر دکھائی جارہی تھی دیکھنے کو نہ ملی 11 مئی کو تصویر دکھانے والوں میں پاکستان بعض دانشور اور میڈیا چینل شامل تھے پوری امید لگائے ہوئے تھے کہ 11 مئی فیصلہ کن دن ثابت ہوگا۔ اور اسلام آباد کا ڈی چوک اور لاہور کا مال روڈ تحریر سکوائر کا روپ دھار کر ایک بہت بڑا انقلاب بپا کر دیں گے۔ یہ تصویر بھی دکھائی جا رہی تھی کہ فرشتوں کی ٹیم تیار بیٹھی ہے جو بے قابو عوام کو کنٹرول کرنے کے لئے وہ سب کچھ کر گزرے گی جسے خلاف جمہوریت کہنا زیادہ بہتر ہوگا۔ تقریب کاری اور دہشت گردی کی افواہوں کا بھی ایک جمعہ بازار آخری دم تک موجود رہا۔ 11 مئی کو پورے ملک بالخصوص لاہور اور اسلام آباد میں جو کچھ ہوا جو تماشہ لگا جو کھیل کھیلنے کی کوشش کی گئی اسے ہم سب نے کھلی آنکھوں اور کانوں کے ساتھ دیکھا اور سنا ہے۔
تحریک انصاف اور عوامی تحریک والے بشمول شیخ رشید احمد 11 مئی کے جلسوں کو بہت بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ آج کے دن لیڈروں نے کیا کچھ کہا اور ردعمل کے طور پر جو کچھ سامنے آیا ہم سب سن اور جان چکے تھے دہرانے کی ضرورت نہیں اس بحث میں بھی الجھنے کی ضرورت نہیں کہ مذکورہ جلسے سونامی تھے یا انہیں صرف بڑے عوامی اجتماعات کہا جاسکتا ہے جتنے منہ اتنی زبانیں میں کون ہوتا ہوں بڑی چیز کو چھوٹی شے قرار دینے والا میری کیا حیثیت ہے کہ 11 مئی کے شو کو ناکام قرار دوں البتہ اتنی عرض کرنے کو اپنا صحافتی حق ضرور سمجھتا ہوں اور اس حق کو استعمال کرتے ہوئے بیان کر رہا ہوں کہ 11 مئی کے اجتماعات کو بڑے جلسے تو کہا جاسکتا ہے مگر انہیں ورکرز کنونشن کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ میں نے تو یہاں ایسی بیبیاں دیکھیں اور وہ بھی اٹھکیلیاں کرتی ہوئیں جن کے ایک ایک چشمے کی قیمت مزدور کے ایک مہینے کی تنخواہ سے زیادہ تھی میں نے ایسے حضرات کو بھی دیکھا جنہوں نے 50، 50 ہزار کی گھڑیاں باندھ رکھی تھیں چھ چھ ہزار روپے کے شوز پہن رکھے ہوئے تھے اور وہ جن گاڑیوں میں تشریف لائے تھے ان کی مالیت نصف کروڑ سے کیا کم ہو گی۔ یہ سب کچھ دیکھ کر مجھے حیرت اس لئے نہیں ہوئی کہ ان جلسوں اور ریلیوں کے خالقوں اور منتظموں کو پاکستان کے غریبوں، مزدوروں، کسانوں، محنت کشوں اور خاص کر سفید پوش یا ان کے مسائل اور دکھوں سے کوئی واسطہ اور تعلق نہیں۔ یادش بخیر! میں نے اپنے پچھلے کالم میں ہی بیان کر دیا تھا کہ اگر 11 مئی کا شو مہنگائی بے روزگاری اور لوڈشیڈنگ کے حوالے سے ہو تو پاکستان کے عام لوگ اسے چار چاند لگا دیں گے مگر افسوس ایسا نہ تھا اور شائد یہی وجہ ہے کہ جس کامیابی کی امید کی جا رہی تھی سامنے نہ آئی.... دوستوں نے عمران خان، شاہ محمود قریشی، جاوید ہاشمی اور شیخ رشید کی تقریریں سنیں لوگوں نے ویڈیو لنک پر شیخ الاسلام کا طویل خطاب بھی سنا مجھے کہنے دیجئے کہ میرے ان لیڈروں میں سے کسی کو بھی توفیق نہ ہوئی کہ عوام کی بات کرتا، لوڈشیڈنگ کے عذاب کا سیاپا کرتا وہ لوڈشیڈنگ جس نے فیکٹریاں، کارخانے بند کرا چھوڑے ہیں لاکھوں محنت کشوں کو بے روزگار کر دیا ہے لاکھوں طلبا کو ذہنی مریض بنا کر رکھ دیا ہوا ہے۔ خاص کر دل کے مریضوں کو دن میں کئی کئی بار مرنا اور جینا پڑتا ہے میرے کسی لیڈر نے مہنگائی پر لب کشائی نہیں کی۔ 11 مئی کے اجتماعات میں ہزاروں نوجوان شریک تھے ان میں ایک کثیر تعداد پڑھے لکھے بے روزگاروں کی بھی ہو گی افسوس کہ کسی لیڈر نے ان کی بے روزگاری کا ذکر تک نہ کیا۔ 11 مئی کی ریلیوں کے حوالے سے لوڈشیڈنگ میں کافی کمی نظر آ رہی ہے اور اللہ کرے کہ مذکورہ کمی دیرپا ثابت ہو اور برقرار رہے ۔
بادل آیا گرجا برسا اور بس....!
May 19, 2014