ملکی اور قومی سلامتی کے تحفظ پر مامور اداروں کی کارکردگی کے بارے میں ہمارے وزیر دفاع کہاں تک با خبر ہیں اس کا اندازہ آپ چونکا دینے والی حالیہ اس خبر سے لگا سکتے ہیں جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی نے دبئی میں مقیم 2بھارتی بھائیوں کی ملکیت فضائی کمپنی کو پاکستان میں مسافر اور کارگو طیارے اڑانے کی اجازت دیتے ہوئے اوپریشن سرٹیفیکیٹ جاری کردیا ہے۔ تفصیلات کچھ اس طرح ہیں کہ مسٹر نتن سار چندنی اور مسٹر جدیب مار چندنی نامی دونوں بھائیوں نے جو بھارتی شہری ہیں کچھ عرصہ قبل پاکستان میں اپنی نجی ائیر لائن سروسز چلانے کے لئے سی اے اےس کو درخواست دی جس کی توثیق کر دی گی۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ان دونوں بھارتی بھائیوں کی فضائی کمپنی ”ریان ائیر“ کو اس سے قبل Na To Forces کے سامان کی ترسیل کے لئے کراچی اور اسلام آباد کے لئے استعمال کیا جا رہا تھا مگر اب ایک بھائی کی فضائی کمپنی کو پاکستان کی فضاﺅں میں اڑانے کی اجازت دینے سے قومی سطح پر کئی سوالات ہی نہیں اٹھائے جا رہے پوری قوم میں گہری تشویش پائی جا رہی ہے یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ بھارت میں پاکستان سمیت کئی غیر ملکی کو Airline بزنس چلانے کی قطعی اجازت نہیں۔ قوم اور بالخصوص برطانوی پاکستانی یہ سوچنے پر مجبور نہیں کہ وزارت دفاع کا قلمندان سنبھالنے والے خواجہ آصف عسکری امور میں کیا اتنے ہی مصروف ہو چکے ہیں کہ ان کے زیر ہدایت فرائض سر انجام دینے والے اداروں کی کارکردگی کا نوٹس لینے کی بھی انہیں فرصت نہیں؟
خواجہ آصف بلاشعبہ ایک بڑے سیاسی گھرانے کے چشم و چراغ ہیں تو پھر خواجہ صاحب کا یہ ارشاد نوٹ فرما لیں جس میں ان کا کہنا ہے کہ 200 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے کو ہرگز غریب نہیں کہنا چاہئےے چلیں خواجہ صاحب کی اس منطق کو اگر تسلیم بھی کر لیا جائے تو پھر قوم ان سے پوچھنے کا حق رکھتی ہے کہ پاکستان میں غریب کہتے کسے ہیں۔
خواجہ صاحب کو چاہئے کہ وہ ”غریب غریب“ کو چھوڑیں کیونکہ وہ خود امیر ہیں ملکی سلامتی، اور قومی مفادات کے علاوہ عسکری قیادت کو مضبوط کریں قومی ائیر لائن پی آئی اے کے ”دانے“ ختم ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں چاہئےے تو یہ تھا کہ وزیر دفاع ”باکمال لوگوں کی اس لاجواب سروس“ کا خسارہ کم کرنے کے لئے کوئی ایسا دیر پا منصوبہ متعارف کراتے جس سے بھارتیوں کی ملکیت فضائی کمپنی کے طیارے چلانے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی۔ مگر جہاں آوے کا آوہ ہی بگڑا ہو وہاں بندو نصیحت کیسی؟
میرے ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے کینٹ سیکرٹریٹ کو اگلے روز یہ بتایا گیا کہ پی آئی اے کے خسارے میں 8سو سے 9 سو ملین روپے کی کمی واقع ہوئی ہے جب کہ اس کی بنیادی وجہ بیرون ممالک تعینات عملے کی چھانٹی اور ان کی چھٹی بتائی گئی ہے۔
کیا ہی اچھا ہوتا وزیر دفاع اگر پی آئی اے کو ہونے والے 90 کروڑ روپے کے خسارے کے بارے میں قوم کو اصل حقائق سے آگاہ کرتے قوم کو تو یہ بتانے کی ضرورت تھی کہ پی آئی اے کے سیون فور سیون ، تھری نیڈرڈ سیرز، ائیربنر اور فوکروں کو کون کھا گیا۔ قوم کو تو یہ بھی بتانے کی ضرورت یہ تھی کہ پی آئی اے اور ریلوے کی گڈیوں کو ہڑپ کرنے والے وہ کونسے آہنی مگرمچھ تھے جنہوں نے ملک کی معاشی اور اقتصادی حالت کا بیڑہ غرق کر دیا۔
مگر افسوس! خواجہ آصف وزارتوں کے بھاری وزن میں اس قدر دب چکے ہیں کہ ”ماڑے موٹے قومی خساروں کا فوری نوٹس لینا ان کے لئے محال ہو چکا ہے۔ پی آئی اے کے خسارے کو اب اگر بھارتی شہریت کے حامل بزنس مینوں کی ملکیتی فضائی کمپنیوں نے ہی پورا کرنا ہے تو پھر آزادی کشمیر کا خواب کب پورا ہو گا۔