آج سے کم و بیش بیس برس قبل جب کرائم رپورٹنگ کا آغاز کیا تو ہر نوجوان کی طرح سیکھنے کی خواہش کچھ زیادہ ہی تھی۔ ایف سی کالج سے ایک بڑے قومی اخبار میں آنے کا تجربہ خوشگوار ترین رہا۔ ایک عام طالب علم کی حیثیت سے پولیس والوں کو دیکھ کر راستہ بدلنے سے شہر کے منتظمین سے براہ راست رابطوں کا سفر اس قدر خود اعتمادی دے گیا کہ جو بھی چیز غلط محسوس ہوتی اس کا برملا اظہار کہتے ہوئے خوف کا شائبہ بھی نہ رہا۔ ملک پولیس سٹیٹ تب بھی تھا اور آج بھی۔ حکمران تھانہ کلچر بدلنے کی باتیں کرتے ہیں۔ ملک میں اگرچہ تب بھی جمہوریت تھی لیکن جلسے، جلوس اور احتجاج کے دوران پولیس کا لاٹھی چارج کوئی غیر معمولی بات نہیں ہوتی تھی لیکن ڈنڈا بردار فورس کو ایک خاص زاویے سے ڈنڈے مارنے کا انداز سمجھنے کیلئے اپنے سیئنرز سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ جینز یا پتلون پہننے والے افراد اپنا پرس عام طور پر پچھلی جیب میں رکھتے ہیں، پشت پر ڈنڈا پڑنے سے ہونے والی تکلیف انہیں پرس کی گمشدگی کے احساس سے محروم کر دیتی ہے اور اگر کسی کو احساس ہو بھی جائے تو وہ پرس اٹھانے کے لیے مزید ڈنڈے کھانے کی تاب نہیں رکھتا۔ اسی طرح کلائی پر چین والی گھڑی کا لاک ڈنڈا لگنے سے کھل جاتا ہے اور درد سے ہاتھ جھٹکتا ہوا آدمی گھڑی گرا بیٹھتا ہے۔ دھکم پیل کے دوران گلے میں پہنی ہوئی چینیں بھی اسی طرح ٹوٹ کر گر جایا کرتی ہیں اور یہ گمشدہ مال اکثر اوقات سرکاری ڈیوٹی پر موجود افراد کیلئے مال غنیمت کی حیثیت رکھتا ہے۔ ڈنڈا بردار فورس تھانوں میں ڈیوٹی نہیں کرتی لہٰذا ان کی اضافی آمدنی یہی ہوتی ہے۔ ناکوں پر موٹر سائیکل سواروں کی کاغذات چیک کرنے کے بہانے تلاشی اور گمشدگی کی رپٹ درج کرانے کیلئے فیس وصولی عام سی بات تھی۔ فیلڈ ڈیوٹی کے دوران ایس ایس پی لاہور حاجی حبیب الرحمن سے لیکر سی سی پی او لاہور پرویز راٹھور تک ہر افسر سے بحث کرتے ہوئے نوجوانی سے ادھیڑ عمری کو پہنچ گیا اور دفتر کے اندر ہی صحافتی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ نوے کی دہائی کے اے ایس پی اب ڈی آئی جی اور ایڈیشنل آئی جی بن چکے ہیں، بُرائیوں کو دیکھ کر کڑھنے والے اے ایس پی تجربہ کار افسر بن کر حالات سے سمجھوتہ کرنے کی صلاحیت بھی حاصل کر چکے ہیں لیکن اب یہ دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ رات کے اوقات میں ناکوں پر گاڑی کی تلاشی اب پہلے جیسی عام بات نہیں رہی، اب رات کو ناکے پر تلاشی کے بعد شریف شہری بھی نقدی اور قیمتی اشیاءکی واپسی کیلئے پولیس والوں کو ڈھونڈتے ہوئے نظر آ سکتے ہیں۔ یہ حالات دیکھ کر ایک قصہ یاد آتا ہے ”کسی گاو¿ں میں ایک گورگن تازہ قبر کے پھول اٹھا کر بیچ دیتا تھا جس پر اہل دیہہ بہت کڑھتے۔ اس کے انتقال کے بعد اس کے بیٹے نے گورکنی شروع کر دی اور تازہ قبروں کے پھولوں اور اگربتیوں کے ساتھ کفن بھی نکال کر بیچنا شروع کر دیا، اس کے انتقال پر ایک دل جلے نے اسے بُرا بھلا کہنا شروع کیا تو لوگوں نے سمجھایا کہ مُردے کو بُرا نہیں کہتے، جس پر اس دل جلے نے کہا کہ مرنے والے کی حرکتیں دیکھ کر لگتا ہے کہ اس کا باپ تو فرشتہ تھا۔“