بھاشا ڈیم کی آشا۔ کالاباغ ڈیم سے نراش

پانی کی کمی اور غذائی قلت کے سبب تھر اور روہی میں بچوں اور بڑوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ اب خریف کی فصل‘ کپاس‘ گنا اور مونجی کی بوائی کا موسم ہے۔ سندھ میں مونجی کی بوائی مئی کے مہینے میں ہوا کرتی تھی مگر اب پانی کی کمیابی ہے اس لئے مونجی کیلئے 10 جون کو پانی مہیا ہوتا ہے۔ پنجاب میں البتہ مونجی دیر سے بوتے ہیں مگر کپاس اور گنا کی بوائی بحرحال مئی کے اوائل میں ہونا لازم ہے۔ پچھیتی فصل کی پیداوار بہت کم ہوتی ہے۔ پہاڑوں پر سے برف پگھلنے کے بجائے مزید برفباری ہو رہی ہے۔ گلیشیئر پگھلنے کا عمل بھی کچھ سست ہے۔ دریائوں میں پانی کی کمی ہے‘ ڈیموں میں ذخیرہ شدہ پانی ربیع کی فصل کیلئے خارج ہو چکا ہے۔ ہائیڈر پاور جنریشن بھی بہت کم ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ عروج پر ہے۔ بجلی کی کمیابی کی وجہ سے عوام چیخ رہی ہے اور وزیر واپڈامزید بُرے دنوں کی نوید دے رہے ہیں۔ سندھ کی نہروں میں پانی کی شدید قلت ہے مگر سیکرٹری اریگیشن ‘ بیورو کریسی کے دستورکے مطابق سب اچھا کا راگ الاپ رہے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں کی طرح اب کے برس بھی بڑے بھائی صوبہ پنجاب قربانی دیتا ہے اور اپنے حصے کے پانی میں سے سندھ کیلئے اضافی پانی دیدیتا ہے۔ انڈس واٹر سسٹم اتھارٹی میں پنجاب کے نمائندہ انجینئر راضی ہو جاتے ہیں اور کپاس اور گنا کی بوائی کیلئے سندھ کو 85 ہزار کیوسک پانی مہیا کیا جاتا ہے مگر آبادگار بورڈ کے مطابق نہری پانی اب بھی ضرورت کے پچاس فیصد سے کم ہے۔ سندھ میں نہروں اور راجباہوں کے منڈہ کے طاقتور زمیندار اپنے حصے سے زیادہ پانی لے جاتے ہیں اور پُچھڑی کے کاشتکار دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ سندھ کے کاشتکار کہتے ہیں نوازشریف‘ شہبازشریف اور عمران خان نے کالاباغ ڈیم بنانے کے وعدے کئے تھے۔ اگر نہیں بنانا تھا تو وعدہ کیوں کیا؟ اب بھاشا ڈیم کا سہانا خواب دکھا رہے ہیں کہ دس پندرہ برس اور انتظار کرو۔ گویا حکومت نے بھاشا ڈیم کی تعمیر کیلئے 22 ارب ڈالر جمع کرنا شروع کئے ہیں۔ رقم ہاتھ میں ہو تو بھاشا ڈیم کی تعمیر میں بارہ سے پندرہ برس لگتے ہیں وگرنہ بائیس برس میں رقم ہاتھ آئے گی تو ڈیم بنے گا اس لئے ملک و قوم کے کاشتکارو!ْ صبر کرو اور بھاشا ڈیم کی آشا میں رہو۔ داسو ہائیڈرو پاور دریا کے بہائو پر چلنے والا منصوبہ ہے۔ داسو ہائیڈرو پانی ذخیرہ کرنے کی سائیڈ (مقام) ہے ہی نہیں۔
مگر حکمران سمجھتے ہیںکہ ’’ھٰذا قوم جاھل‘‘ یہ قوم جاہل لوگوں پر مشتمل ہے اس لئے عوام کو خوش کرنے کیلئے کہتے ہیں کہ داسو ’’ڈیم‘‘ دو برسوں میں بنیں گے اور اس میں آٹھ ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ ہوگا۔
پھر وعدوں سے منکر ہو جائو اور عوام کو لامتناہی دھوکے میں رکھے رکھو۔ 1988ء کے انتخابات کے نتیجہ میں بینظیربھٹو کی پی پی پی پی کو واضح اکثریت نہیں مل سکی مگر واحد اکثریتی جماعت ضرور بنی۔ یہ ممکن تھا کہ دیگر جماعتیں مل کر مخلوط حکومت بنا لیتیں۔ صدر غلام اسحاق خان مخمصے میں پڑے رہے تو محترمہ بینظیر بھٹو کو تشویش ہوئی اور انہوں نے امریکہ سے رجوع کیا اور ایک ڈیل کے نتیجے میں ان کو حکومت مل گئی۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے کشمیر کا مسئلہ پس پشت ڈال دیا اور انڈیا کے ساتھ دوستی کا آغاز کیا۔ اپنے وزیرداخلہ اعتزازاحسن کے ذریعے راجیو گاندھی کو سکھوں کی تحریک خالصتان کے اسرار عیاں کرکے انڈیا کی جان خلاصی کرائی اور مزید دوستی کی پینگیں بڑھاتی رہیں۔ کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر کام کو روک دیا اور اس عظیم قومی منصوبہ کو منجمد کر دیا۔ ایٹمی پروگرا م کو منجمد کرنے کی ٹھان لی تو محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت ختم کر دی گئی۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنی حیات میں جتنا ممکن تھا کالاباغ ڈیم کی تعمیر میں روڑے اٹکاتی رہی اور اپنی ہر دو رحکمرانی میں اسے منجمد رکھا۔ اسی طرح مسئلہ کشمیر کو بھی پس پشت ڈال دیا۔ 2008ء میں پی پی پی پی پی کی حکومت بنی تو آصف علی زرداری نے فرمایا کہ کشمیر کا مسئلہ آنے والی نسلوں پر چھوڑ دیتے ہیں اور پڑوسی انڈیا کے ساتھ دوستی کریںگے۔ پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان نے بھی فرمایا کہ وہ کشمیر کے معاملہ میں آصف علی زرداری کی حکمت عملی کی تائید کرتے ہیں۔ یہ بھی امریکہ کی واضح حکمت عملی ہے کہ پاکستان معاشی ترقی ہرگز نہ کر پائے۔ اگر کالاباغ ڈیم بن جاتا ہے تو پاکستان کو سالانہ 20 ارب ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔ عوام کو وافر روزگار ملتا ہے اور کاشتکار خوشحال ہوتا ہے۔ پاکستان اگر معاشی بحران سے نجات پاتا ہے تو پھر نہ تو امریکہ کی من مانی ہونے دے گا نہ ہی انڈیا کو اپنی مفادات پر ترجیح دینے کیلئے امریکی دبائو کو خاطر میں لائیگا۔
آصف علی زداری کی حکومت نے کشمیر کے معاملہ کو پش پشت ڈال کر انڈیا کے ساتھ امن کی آشا میں دوستی کرنے میں بے تاب رہے۔ کالاباغ ڈیم منصوبہ کو ختم کر دیا۔ موجودہ حکومت بھی انڈیا کے ساتھ دوستی کرنے میں سرگرم ہوئی۔ 29 مارچ 2014ء کو وزیراعظم نے کابینہ کا اجلاس بلایا تاکہ انڈیا کو MFN اور NDMA کا درجہ دیکر پاکستان کی منڈیوں میں کھلم کھلا تجارتی رسائی دی جائے۔ وزیرتجارت انڈیا کا دورہ کر چکے تھے اور وہاں پر وعدے وعید کرکے آئے تھے۔ حکومت کا یہ عمل مسئلہ کشمیر اور دیگر گھمبیر مسائل کو پس پشت ڈال کر انڈیا کو پاکستان کی سرزمین سے گزر کر وسط ایشیائی ممالک اور روس تک تجارت کیلئے راہداری دینے کا پیش خیمہ ہے۔ امریکہ نے پاکستان پر دبائو ڈالا ہوا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے خلاف تباہی کی کارروائیوں میں انڈیا کی گراں قدر خدمات ہیں اس لئے صلے میں انڈیا کو پاکستان کی سرزمین سے وسط ایشیائی ممالک اور روس کے ساتھ تجارتی راہداری مل جائے۔ بس ہمارے حکمران کچھ اس انداز سے راضی ہوئے کہ وہ بھی امریکہ کے ساتھ کسی ڈیل کے نتیجہ میں حکومت بنا سکیں۔ ماضی میں تو عسکری قیادت  پاکستان کی ایٹمی پروگرام کو جاری رکھے ہوئے تھی اور کسی سول قیادت کو اس معاملہ میں خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ اب بھی بفضل خدا پاکستان کی ایٹمی اثاثہ جات عساکر پاکستان کے ہاتھ میں مضبوط ہیں مگر کشمیر اور دیگر عظیم قومی مفادات کی حفاظت کیلئے بھی عسکری قیادت مستعد ہوئی اور حکومت پر واضح کیا کہ جب تک کشمیر‘ سرکریک‘ سیاچن اور پانیوں کے تنازعات حل نہیں ہوتے تب تک انڈیا کو کسی قسم کی رعایت نہیں دی جائے گی۔ یوم شہداء کی تقریب کے موقع پر آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے واضح کیا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور کشمیر کے تنازع کو اقوام متحدہ کی قرادادوں کی روشنی میں کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل ہونا چاہئے۔ گویا کہ پاک فوج کی قیادت ایٹمی اثاثہ جات کے ساتھ ملک کے مفادات کی حفاظت بھی کرینگے اور کسی سول قیادت کو ان پر سودے بازی کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ کالاباغ ڈیم کی تعمیر نہیں کرنے کے وزیرمملکت پانی و بجلی عابد شیر علی کے حالیہ بیان کو عوامی حلقوں اور دانشوروں میں تعبیر کیا جا رہا ہے کہ وزیراعظم ڈاکٹر نوازشریف کی حکومت گویا امریکہ کے ساتھ کسی ڈیل کے نتیجے میں بنی ہے‘ جیسا کہ ماضی میں محترمہ بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی حکومتیں بنی ہیں‘ جس طرح ماضی کی حکومتوں نے امریکہ کے ساتھ کئے وعدوں کی من و عن پاسداری کی ہے‘ اس طرح ڈاکٹر نوازشریف کی حکومت بھی امریکہ سے کئے گئے وعدوں پر عمل کر رہی ہے۔کشمیر اور دیگر قومی مفادات کو تو عسا کر پاکستان کے ہاتھوں تحفظ مل گیا ہے مگر کالاباغ ڈیم کمی تعمیر کو منجمد کر دیا گیا ہے جو ایک تاریخی عظیم قومی المیہ ہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...