ڈاکٹر مجید نظامی مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کی تلقین کرتے ہُوئے قُرآنِ پاک کی سُورة الانفال کے حوالے سے ہر دَور کے حُکمرانوں کو ”اپنے گھوڑے تیار رکھو“ کا سبق یاد دلایا کرتے ہیں۔ سُورہ ”الانفال“ کی آیت نمبر 60 میں کہا گیا ہے کہ ”اور جہاں تک ہو سکے (فوج کی جمعیت کے زور سے) گھوڑوں کو تیار رکھنے سے اُن کے (مقابلے کے لئے) مُستعد ہو کر کہ اِس سے خُدا کے دشمنوں اور تمہارے دُشمنوں اور اُن کے علاوہ جِنہیں تُم نہیں جانتے اور خُدا جانتا ہے‘ ہَینت بیٹھی رہے اور تُم جو کُچھ خُدا کی راہ میں (عوام کی بھلائی پر) خرچ کرو گے اُس کا ثواب تمہیں پُورا دِیا جائے گا اور تمہارا ذرا بھر بھی نقصان نہیں ہو گا“۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے شری نریندر مودی بھارت کے نئے وزیرِاعظم کی حیثیت سے اپنا عہدہ سنبھالنے والے ہیں۔ ہمارے وزیِراعظم جناب نواز شریف کی طرف سے اُنہیں مُبارکباد دینے پر تبصرہ کرتے ہُوئے 18 مئی کے ”نوائے وقت“ کے ایڈیٹوریل میں لِکھا گیا ہے کہ ”وزیرِاعظم نواز شریف نے مودی کو جیتنے پر مُبارکباد دی جو یقیناً رسمی طور پر ہو گی۔ ساتھ ہی مودی کو دورہ پاکستان کی دعوت بھی دے دی۔ اِن حالات میں جب مودی کا پا کستان کے حوالے سے خُبث مخفی نہیں ہے۔ پاکستان کی طرف سے بھارت کے ساتھ تعلقات دوستی اور تجارت کے فروغ میں زیادہ پھُرتیاں دکھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اپنی غیر انسانی سوچ کے باعث مودی مقامی اور عالمی سطح پر نفرت کا نشانہ بنا ہُوا ہے“۔
بھارت کے صوبہ گجرات کے آنجہانی موہن داس کرم چند گاندھی اور نریندر مودی میں صِرف ایک ہی قدر مشترک ہے کہ دونوں کا تعلق بَنیوں کے خاندان سے ہے۔ گاندھی جی اور اُن کے پیروکار ”انسانوں کے پالنہار“ وِشنو دیوتا کے اَوتار ”شری رام“ کے پِیروکار تھے لیکن مودی جی کے نظریاتی گُور و تباہی و بربادی کے دیوتا ”وِشنو“ کے پُجاری تھے اور ہیں۔ گاندھی جی کا نعرہ متحدہ ہندوستان میں ”رام راج“ قائم کرنا تھا لیکن اپنے عملی کردار کے لحاظ سے یہ گاندھی جی ہی تھے کہ جِن کے حوالے سے ”بغل میں چھُری اور مُنہ میں رام“ کی ضرب اُلمِثل ایجاد ہُوئی۔ ہندو روایات کے مطابق شری رام کا راج ”فلاحی مملکت“ تھا۔ جہاں نیچ ذات کے لوگوں کا بھی خیال رکھا جاتا تھا۔ ”رامائن“ میں لِکھا ہے کہ ”شری رام رات کو بھیس بدل کر اپنی رعایا کے مسائل معلوم کِیا کرتے تھے۔ وہ کسی بھی انسان سے نفرت نہیں کرتے تھے اور انہوں نے اپنی عقیدت مند ایک بھیلنی (شُودر عورت) کے جُوٹھے بیر بھی کھا لئے تھے“۔
بھارت کے پہلے وزیرِاعظم پنڈت جواہر لعل نہرو ذات کے براہمن تھے اور سیکولر کہلاتے تھے لیکن اُن کے دَور سے لے کر اُن کی یادگار انڈین نیشنل کانگریس کے آخری وزیرِاعظم ڈاکٹر من موہن سِنگھ کے دَور تک بھارت میں ”رام راج“ کی جھلک دِکھائی نہیںدی۔ شودروں کو تو کیا بھارت کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کو اُن کے انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا اور ”دِلت“ (پسماندہ) ہندوﺅں کو بھی شری مودی اور اُن کی پارٹی ”بھارتیہ جنتا پارٹی“ بھارت کی دہشت گرد تنظیم ”راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور ”اکھِل بھارتیہ ہندو مہا سبھا“ (آل انڈیا ہندو اسمبلی) کی کوکھ سے نِکلی ہے۔ 1947ءمیں بھارت کی تقسیم اور قیامِ پاکستان کے اعلان کے بعد بھارت میں 13 لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کا قتلِ عام انہی ہندو تنظیموں اور سِکھوں کے گٹھ جوڑ سے ہُوا تھا۔ صِرف مشرقی پنجاب میں 10 لاکھ مسلمانوں کو قتل کِیا گیا اور 50 ہزار مسلمان عورتوں کو اغوا کرکے اُن کی عصمت دری کی گئی۔
بھارت کی تقسیم کا فارمولا تسلیم کرنے پر 30 جنوری 1948ءکو دِلّی میں جِس شخص ناتھورام گوڈ سے نے گاندھی جی کو قتل کِیا تھا اُس کا تعلق بھارتیہ جنتا پارٹی کی امّاں ”اکھِل بھارتیہ ہندو مہا سبھا“ سے تھا۔ شری نرِیندر مودی تین بار گُجرات کے وزیرِاعلیٰ رہے۔ ہر دَور میں اُن کا تباہی و بربادی کا دیوتا ”شِوا“ مسلمانوں کے قتلِ عام میں ہی مصروف رہا۔ بھارت کی کوئی بھی عدالت مودی کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سابق وزیرِاعظم شری اٹل بہاری واجپائی ہندی زبان کے شاعر تھے اور موقع بے موقع اپنی نظم ”جنگ نہ ہونے دیں گے۔ ہم جنگ نہ ہونے دیں گے“۔ سُنایا کرتے تھے۔ واجپائی جی فروری 1999ءمیں پاکستان کے دورے پر آئے تھے تب بھی انہوں نے یہ نظم سُنائی تھی۔ اٹل جی نے جنگ نہیں ہونے دی لیکن مقبوضہ کشمیر کا قبضہ نہیں چھوڑا۔ اپنی کشمیر پالیسی پر ”اٹل“ رہے۔ مودی جی گجراتی زبان کے شاعر ہیں لیکن وہ ”ہندو توا“ کے علمبردار ہیں۔ اُن کا نعرہ ہے کہ ”جو ہندو نہیں ہے اُسے بھارت سے نکال دِیا جائے یا قتل کر دِیا جائے“۔ بے شک ہمارے وزیرِاعظم 1999ءکے سے خوشگوار حالات کی سی ”آشا“ لگائے رہیں۔
1257ءمیں چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے (مرکزِ خلافت) بغداد پر حملہ کیا تو بنو عباس کا 36واں خلیفہ مُستعصِم باللہ تاج و تخت کا مالک تھا۔ بیت اُلمال ہیرے جواہرات اور سونے چاندی سے بھرا ہوا تھا۔ خلیفہ بیت اُلمال کا واحد مالک تھا۔ عوام مفلُوک اُلحال تھے بدعُنوان اور خوشامدی لوگ خلیفہ کے درباری اور مُشیر تھے۔ دربار میں اور مسجدوں میں جاہ پرست عُلماءخلیفہ مُستعصِم باللہ اور بنو عباس کی عظمت کے قصِیدے پڑھتے تھے۔ مسجدوں میں بحث ہو رہی تھی کہ ”کوّا حرام ہے‘ حلال ہے یا مکرُوہ“ خلیفہ اپنی فوج کو باقاعدگی سے تنخواہیں نہیں دیتا تھا اور تمام تر مذہبی اختیارات کے ساتھ آمرِ مطلق تھا۔ اُس دَور میں خُلفاءکی طرف سے اپنی ذاتی / سرکاری دولت کو بیرون مُلک بنکوں میں جمع کرنے کا رواج نہیں تھا۔ خلیفہ /مملکتِ اسلامیہ کے پاس ایٹم بم بھی نہیں تھا۔ ورنہ وہ ہلاکو خان اور اُس کی فوج کو بغداد کی حدود میں داخل ہونے سے پہلے ہی نیست و نابود کر دیتا۔
موجودہ دَور میں مملکتِ خدادادِ پاکستان کے حالات مختلف ہیں۔ فوج سمیت سرکاری افسروں /اہلکاروں کو تنخواہیں باقاعدگی سے مِل رہی ہیں۔ سیاسی /حکومتی قائدین اور اپوزیشن لیڈروں کی سکیورٹی کا معقول انتظام ہے۔ ہمارے وزیرِ خزانہ جناب اسحق ڈار ہر روز خوش کُن خبر سُناتے ہیں کہ ہمارے زرِمبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے ہیں لیکن عوام بے روزگاری‘ بیماری‘ جہالت اور غُربت کا شکار ہیں۔ انتہا پسندوں اور اُن کے سر پرست عُلماءکی اکڑ فوں ختم نہیں ہو رہی۔ ایسی صورت میں ہم نرِیندر مودی کو مُبارک باد دینے کے سِوا اور کیا کر سکتے ہیں؟۔ شاید ہمارے حُکمرانوں کے لئے ابھی تک گھوڑے تیار کرنے کا وقت نہیں آیا اور نہ ہی سورة الانفال کے مطابق عوام کی بھلائی پر خرچ کرنے کے لئے؟۔