ایک میڈیا گروپ کے مچائے گئے اودھم میں اتنی گرد اڑائی جا چکی ہے کہ ؎
زباں بگڑی سو بگڑی تھی
خبر لیجئے دہن بگڑا
سے بھی آگے کی نوبت آن پہنچی ہے۔ اس اودھم نے اخلاقی اور معاشرتی اقدار کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہے اور جمہوری نظام کیلئے بھی سنگین خطرات پیدا کئے ہیں سو ہر ذی شعور اور صاحب الرائے کے ذہن میں یہ سوال ابھرنا فطری امر ہے کہ اس اودھم کے پس پردہ کس کا ایجنڈہ پورا کیا گیا ہے۔ اگر معاملہ صرف اظہار رائے کی آزادی کا ہوتا، صرف آزادیٔ صحافت کے تقاضے نبھانے کا ہوتا تو پوری کمیونٹی صحافت اور اظہار رائے کی آزادی کو لاحق خطرات کے مقابلہ کیلئے ایک صف میں کھڑی نظر آتی مگر یہ اودھم تو اظہار رائے کی آزادی کے تحفظ کا نظر ہی نہیں آتا بلکہ اس کے ذریعے ملک کی نظریاتی اساس پر زد لگانے، شعائر اسلام کے حوالے سے باطل قوتوں کی سوچ کو تقویت پہنچانے اور مادر پدر آزاد معاشرے کی راہ ہموار کر کے تمام اخلاقی، سماجی اقدار کا جنازہ نکالنے اور اس کا کریڈٹ بھی لینے کی نپی تُلی حکمتِ عملی کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ گذشتہ روز ’’وقت نیوز‘‘ کے صبح کے پروگرام ’’نوائے وقت ٹوڈے‘‘ میں بھی متذکرہ میڈیا گروپ کے اودھم کے حوالے سے لائیو کالرز کا یہی تجسس تھا۔ آخر یہ سلسلہ کہیں جا کر تو تھمنا ہے مگر متعلقہ میڈیا گروپ کی پوری کوشش ہے کہ اس کا منطقی نتیجہ اس کے پہلے سے طے شدہ ایجنڈے کے عین مطابق برآمد ہو۔
میں آزادیٔ صحافت اور اظہار رائے کی آزادی کے آئینی حق کے تناظر میں میڈیا کے کسی بھی حصے پر کسی قسم کی قدغنوں کا ہمیشہ مخالف رہا ہوں جس کیلئے میرا استدلال یہی ہے کہ آج اگر کسی ایک میڈیا گروپ پر پابندی کو کسی مصلحت کے تحت قبول کر لیا گیا تو پھر یہ پابندی صرف اس میڈیا گروپ تک محدود نہیں رہے گی بلکہ جنہیں میڈیا کی آزادی سوٹ نہیں کرتی اور وہ آزاد میڈیا کو اپنے مقاصد و مفادات کی راہ میں دیوار سمجھتے ہیں انہیں ایک پابندی کے جواز پر یکے بعد دیگرے پورے میڈیا کو نکیل ڈالنے کا نادر موقع مل جائے گا۔ مجھے اسی تناظر میں بعض میڈیا گروپس کی جانب سے ایک دوسرے کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالنے اور ان کی دھجیاں بکھیرنے کا عمل اچھا نہیں لگا تھا، مگر مجھے حیرت بھی ہے اور افسوس بھی کہ اس ساری دشنام طرازی کو نہ صرف روکنے کے لئے کسی نے کوئی کردار ادا نہیں کیا بلکہ ایک دوسرے کے معاملہ کو ذاتیات کی نچلی سطح تک لے جانے کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی۔ نتیجتاً آج اظہار رائے کی آزادی کا تصور ٹکے ٹوکری ہوتا نظر آ رہا ہے چنانچہ اس ماحول میں میڈیا کی آزادی مضبوط شکنجوں میں کس دی جائے گی تو اس ایکشن کے خلاف سوسائٹی میں کوئی تڑپ بھی انگڑائی نہیں لے پائے گی، پھر ہم میڈیا پر عائد کی جانے والی قدغنوں پر کس کو موردِ الزام ٹھہرائیں گے؟ کیا بہتر نہیں کہ ہوش کے ناخن لیتے ہوئے پھیلائے جانے والے بگاڑ کو اب سمیٹنے کی راہ اختیار کر لی جائے جس کے لئے اپنی صفوں میں کتھارسس کے عمل کا اجرا انتہائی ضروری ہے۔ کیونکہ اس سارے معاملہ میں حکومت کا خاموش تماشائی کا کردار کسی اور ہی کہانی کے تانے بانے بُنتا نظر آ رہا ہے۔ کیا اب اس معاملہ پر بھی کسی کو سمجھانے کی ضرورت پیش آنی چاہئے کہ اظہار رائے اور میڈیا کی آزادی کا تصور شُتر بے مہار آزادی والا قطعاً نہیں ہوتا، بعض میڈیا گروپس میں یہ تصور باندھا گیا ہے تو ان خرابیوں نے جنم لیا ہے جو اب میڈیا کے لئے ایک کڑے ضابطۂ کار اور ضابطۂ اخلاق کی متقاضی ہو چکی ہیں۔ ان خرابیوں میں سوائے ایک دو میڈیا گروپس (بشمول نوائے وقت گروپ) کے، کسی نے بھی معاشرے میں اخلاق باختگی کو فروغ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اگر آج اخلاقی باختگی، معاشرتی، سماجی اقدار کی دھجیاں بکھیرنے اور وطن عزیز کی نظریاتی اساس اور شعائر اسلام کو تضحیک کا نشانہ بنانے کے معاملہ میں کسی ایک میڈیا گروپ کا کوئی پروگرام عوامی احتساب کی پکڑ میں آیا ہے تو دوسرے میڈیا گروپ بھی تو اپنے مارننگ شوز میں ایسے ہی اودھم کے مرتکب ہوتے رہے ہیں اور اب بھی ہو رہے ہیں۔ اس لئے کسی ایک میڈیا گروپ پر ممکنہ قدغنوں کے حوالے سے بغلیں بجانے کے بجائے اپنے پیدا کردہ بگاڑ کو سمیٹ کر میڈیا کی آزادی کو ضوابطِ اخلاقیات کے دائرے میں لانے کی راہ اختیار کی جائے ورنہ موجودہ روش پر تو سوشل میڈیا پر سب کے بخئے ادھڑ رہے ہیں، اس لئے اگر سلجھائو کی راہ اختیار نہ کی گئی تو سوشل میڈیا پر میڈیا اور اظہار رائے کی آزادی کے تصور کے اُڑتے ہوئے پُرزے، اُدھڑتے ہوئے بخئے اور تار تار ہو کر دھجیاں بنتے اُجلے دامن ہی میڈیا کی آزادی کو پابندِ سلاسل کرنے کا جواز بن جائیں گے۔ ایک کے بعد دوسرے میڈیا گروپ کے کسی نہ کسی پروگرام میں شعائر اسلام، اہلبیتؓ اور صحابہ کرامؓ کی تضحیک کے دانستہ نادانستہ مناظر میڈیا کی شُتر بے مہار آزادی کا ہی تو شاخسانہ ہیں۔ اس لئے اب اس شر میں سے خیر کو کشید کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے کیونکہ کوئی بھی معاشرہ چاہے وہ جتنا بھی آزاد و خود مختار کیوں نہ ہو، میڈیا کی ایسی شُتر بے مہار آزادی کا متحمل نہیں ہو سکتا جو اس کی اعلیٰ اقدار، شائستگی، اخلاقیات اور اس کے بنیادی نظریات کو دامن گیر ہو رہی ہوں۔ اب ہمیں یقیناً میڈیا گروپس میں کاروباری مفادات اور ملکی و قومی مفادات میں امتیاز کرنا ہو گا اور ریٹنگ کی خاطر ہر الا بلا پر دھاڑتی، گرجتی، پھڑکتی ’’بریکنگ نیوز‘‘ کی روش ترک کرنا ہو گی۔ اس کے لئے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی تمام تنظیموں اور میڈیا گروپس کے کرتا دھرتائوں کو باہم مل بیٹھ کر کوئی راہِ عمل نکالنا ہو گی اور میڈیا کی آزادی کے اختراع کردہ اچھوتے تصور سے گلوخلاصی کرانا ہو گا ورنہ ہم اپنے پائوں پر خود ہی کلہاڑی مار رہے ہیں۔ سو ہمارے پاس سوائے اس حرفِ تاسف کے اور کچھ نہیں بچے گا کہ ؎
کُج اُنج والی راہواں اوکھیاں سن
کُج گل وِچہ غم دا طوق وی سی
کُج شہر دے لوک وی ظالم سن
کُج سانوں مرن دا شوق وی سی