لاہور (معین اظہر سے) حکومت پنجاب نے سزائے موت کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے خود اس مسئلے کو وفاقی حکومت کے سامنے اٹھانے کا فیصلہ بھی کر لیا ہے۔ ترکی کی طرز پر سزائے موت ختم کر کے قیدیوں کو مرنے تک جیلوں میں رکھا جائیگا جبکہ آئندہ سزائے موت کی بجائے ساری عمر جیل میں رہنے کی سزا کی تجویز دی گئی ہے۔ ہوم سیکرٹری پنجاب نے اجلاس میں کہا ہے کہ پاکستان میں سزائے موت ختم کرنے پر جو تنازعہ پایا جاتا ہے وہ اس نئی قانون سازی سے ختم ہو جائیگا تاہم اسوقت پنجاب کی جیلوں میں 6 ہزار سزائے موت کے قیدی ہیں جو جیلوں میں منظورشدہ تعداد کا تقریباً 40 فیصد ہے۔ سزائے موت ختم ہونے سے پنجاب حکومت کو سالانہ تقریباً پانچ لاکھ روپے فی قیدی خرچ کرنا پڑیگا جبکہ گذشتہ 6 برسوں میں پنجاب میں کسی قیدی کو سزائے موت نہیں دی گئی ہے اور اس پر عملدرآمد کو روکا گیا ہے جبکہ آخری مرتبہ پنجاب میں 2008ء میں 33 قیدیوں کو سزائے موت دی گئی تھی۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی زیرصدارت امن وامان کے حوالے سے اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا جس میں وزیر ماحولیات پنجاب کرنل ریٹائرڈ شجاع خانزادہ، ڈاکٹر مصطفی ترکی پولیس کے ہیڈ آف ڈیلی گیشن، رانا مقبول احمد، بریگیڈیئر (ر) انیس احمد، چیف سیکرٹری پنجاب، وزیراعلیٰ کے سیکرٹری، آئی جی پنجاب، ہوم سیکرٹری، ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ، آئی جی جیل خانہ جات ڈی آئی جی ایلیٹ فورس اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی جس میں ہوم سیکرٹری پنجاب نے ترکی کے دورے پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا ترکی نے سزائے موت ختم کر دی ہے، اسکی جگہ مرنے تک قید کی سزا دی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا سزائے موت ختم کرنے پر پاکستان میں جو تنازعہ ہے اس سزا کی صورت میں دینی حلقوں کے اختلافات ختم ہو جائیں گے جس پر میٹنگ میں فیصلہ کیا گیا وزیراعلیٰ پنجاب وزیر اعظم نواز شریف سے ذاتی طور پر یہ مسئلہ طے کریں گے تاکہ قانون میں ترمیم کی جائے۔ ذرائع کے مطابق اس وقت پنجاب میں تقریباً 5960 سزائے موت کے قیدی جیلوں میں بند ہیں اور جیلوں میں کل قیدیوں کی رکھنے کی تعداد صرف 21 ہزار 527 سال ہے۔ ہر سال پنجاب میں تقریباً 500 سے ایک ہزار افراد قتل کے کیسوں میں جیلوں میں آتے ہیں۔ حکومت نے سزائے موت ختم کر دی تو 6 ہزار قیدی جیلوں میں اپنی موت تک رہیں گے جس پر حکومت کو تقریباً 30 کروڑ سالانہ ان کی رہائش کھانے پینے پر خرچ کرنا پڑیگا۔ پنجاب میں سزائے موت کو عملاً ختم کر دیا گیا ہے۔ 2002 ء میں 22 افراد، 2003 ء میں 31، 2004ء میں 28، 2005ء میں 66 ، 2006ء میں 90 اور 2007ء میں 159 قیدیوں کو سزائے موت دی گئی اور 2008ء اگست کے بعد سے سزائے موت دینا بند کر دی گئی ہے۔ یورپی ممالک کی طرف سے بھی دبائو ہے سزائے موت کو ختم کر دیا جائے۔