نئی دہلی (نوائے وقت رپورٹ + نیٹ نیوز + ایجنسیاں) بھارتی صدر پرناب مکھرجی نے لوک سبھا تحلیل کردی ہے۔ تحلیل کئے جانے کا یہ حکم نامہ فوری طور پر نافذ العمل ہوگا۔ لوک سبھا کے 16 ویں انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کے بعد متوقع وزیراعظم نریندر موودی نے کابینہ کی تشکیل کے لیے صلاح مشورے شروع کردیئے اس سلسلے میں انہوں نے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی، لال کرشن ایڈوانی اور پارٹی کے صدر راج نات سنگھ سے ملاقاتیں کی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کابینہ کی تشکیل موودی کیلئے بڑا چیلنج ثابت ہوسکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ واضح اکثریت کے باوجود نامزد وزیر اعظم نریندر مودی کو ا پنی کابینہ کو حتمی شکل دینے سے پہلے بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ دوسری جانب نامزد وزیراعظم نریندر مودی پرسوں اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے، بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر رہنمائوں اور دیگر جماعتوں سے رابطوں میں ہیں اور انہیں حکومت میں شمولیت کی دعوت دی جارہی ہے، بھارتی ٹی وی کے مطابق بی جے پی نے عام آدمی پارٹی سے بھی رابطہ کیا ہے تاہم اس حوالے سے مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔ 543 رکنی ایوان لوک سبھا میں تمام ارکان حلف اٹھائیں گے جس کے بعد سپیکرکا انتخاب عمل میں لایا جائیگا۔ بھارتی صدر پرناب مکھرجی مودی سے حلف لیں گے۔ اس سے قبل نریندرا مودی اتوارکو اپنے ہاتھوں میں پرچم لہراتے ہوئے وارانسی پہنچے توسینکڑوں حامیوں نے ان کا شاندار استقبال کیا، مودی نے مسکراتے ہوئے فتح کا نشان بنایا، اس دوران وہ ایک پرانے اور تاریخی مندرکاشی وشوناتھ گئے اور مذہبی رسومات ادا کیں اورکچھ دیر پوجاکی۔ مودی کے حامی نریندر مودی کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔ لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے کہا کہ یہ جیت پارٹی کے لاکھوں کارکنوں کی محنت کا نتیجہ ہے، اگلے وزیر اعظم کی آمد کے موقع پر پورے شہر میں سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے، خیال کیا جا رہا ہے کہ مودی وڈودرا کی سیٹ چھوڑیں گے وارانسی کی سیٹ سے ہی لوک سبھا کے رکن رہیں گے تاہم ابھی تک انہوں نے اسکا اعلان نہیں کیا۔بی بی سی کے مطابق امریکی صدر اوباما کی جانب سے نریندر مودی کو دوئہ امریکہ کی دعوت کے بعد مودی کو امریکی ویزہ دیے جانے پر عائد پابندی ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اوباما نے مودی کو فون کر کے نہ صرف مبارکباد دی تھی بلکہ انھیں عہدہ سنبھالنے کے بعد امریکہ کی دورہ کرنے کی دعوت بھی دی تھی۔ امریکی حکام 2002 میں بھارتی ریاست گجرات میں نریندر مودی کی وزارتِ اعلیٰ کے دوران مسلم کش فسادات میں ہزاروں افراد کی ہلاکت کے بعد سے انھیں امریکہ کا ویزا دینے سے انکار کرتے آئے ہیں۔ 2005 میں امریکہ نے مودی کو سفارتی ویزا دینے سے انکار کیا تھا بعدازاں ان کا سیاحتی اور کاروباری ویزا بھی رد کر دیا گیا تھا۔ تاہم اے ایف پی کے مطابق اب امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ انھیں بطور سربراہِ مملکت خوش آمدید کہا جائے گا۔ محکمہ خارجہ کی ترجمان جین ساکی نے اس بارے میں سوال کے جواب میں کہا کہ ’ہم نئے بھارتی وزیراعظم کا خیر مقدم کریں گے اور سربراہِ حکومت کے طور پر مودی اے ون درجہ بندی کے ویزا کے اہل ہوں گے۔‘دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ نے بی جے پی کی جانب سے نریندر مودی کی بھارتی وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار کے طور پر نامزدگی کے موقع پر بھی انھیں ویزا نہ دینے کی پالیسی برقرار رکھنے کا اعلان کیا تھا تاہم اب ان کی فتح کے بعد امریکی پالیسی تبدیل ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ امریکی صدر کے دفتر کا کہنا ہے کہ صدر اوباما نے دونوں ممالک کے دو طرفہ تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے نریندر مودی کو واشنگٹن کے دورے کی دعوت دی۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی کا کہنا ہے کہ ’ایک بار بھارت میں نئی حکومت اقتدار سنبھال لے تو اس کے بعد ہم وزیراعظم اور وہاں کی کابینہ کے ساتھ مضبوط دو طرفہ تعلقات قائم ہوتے دیکھ رہے ہیں۔‘ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بھی مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام میں نریندر مودی کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے مل کر خطے میں سکیورٹی اور خوشحالی کو فروع دینے کی امید کا اظہار کیا ہے۔بھارتی میڈیا کے مطابق مودی کابینہ میں سشما سوراج، ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی، یشونت سنہا، اوما بھارتی، آننت کمار، نائیڈو، ارون جیٹلی، منتن گڈکری، شانتا کمار، بی سی کھندوری، روی شنکر پرساد، بی ایس یدورپا، گوپی ناتھ منڈے، مانیکا گاندھی کی شمولیت کا امکان ہے۔ سشما سوراج دفاع، ایل کے ایڈوانی سپیکر کے عہدے پر براجمان ہو سکتے ہیں۔ مودی نے واجپائی، ایڈوانی اور پارٹی صدر راج ناتھ سے ملاقاتوں میں مشاورت کی ہے۔
لوک سبھا تحلیل، حکومت سازی کیلئے مودی کے واجپائی اور دیگر سے مشورے
May 19, 2014