پپو یار تنگ نہ کر

ٹرکوں کے پیچھے لکھا ہوتا ہے کہ پپو یار تنگ نہ کر۔ سیاست میں وہ کیسے آ گیا ہے کسی سیاسی ٹرک والے سے پوچھ لیا جائے۔ اسے پپو نے ضرور تنگ کیا ہو گا۔ برادرم پرویز رشید نے کہا ہے کہ عمران اب دھاندلی کے لئے کسی پیپر کا نام لے رہے ہیں۔ عمران کو وہ ٹیوب بھی ابھی نہیں ملی جس میں 35 پنکچر لگے ہیں۔ ٹرکوں میں سیاستدان اپنے سامعین کو بھر بھر کے لاتے ہیں۔ اپوزیشن میں بھی یہ بات ہے۔ حکومت والے تو یہ چکر ضرور چلاتے ہیں۔ اپوزیشن والے بہت پوزیشن میں ہیں۔ آج کل ان کے لئے بھی کوئی تو کرتا ہے ورنہ 2011ء کے مینار پاکستان والے عمران خان کے جلسے میں اتنے لوگ کہاں آ گئے تھے۔
پرویز رشید پپو کو تلاش کرنے کی بجائے ذرا پیار سے عمران کو کہہ دیں۔ پپو یار تنگ نہ کر۔ وہ کون پپو ہے جس نے تنگ کرنے کے لئے دھادلی کروا دی ہے۔ ہم دو سال سے دھاندلی کا شور سن رہے ہیں۔ مگر عوام کا برا حال ہے۔ دھاندلی ہوئی یا نہیں ہوئی۔ یہ فیصلہ کب ہو گا۔ حکومت نے کچھ نہیںکیا تو اپوزیشن نے کیا کیا ہے۔ عوام کے ساتھ الیکشن کے بعد بھی دھاندلی ہو رہی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں لگے ہوئے ہیں۔ اس مسئلے کے لئے بھی کوئی بات ہی ہوتی۔
مجھے یقین ہے کہ دھاندلی نہ ہوئی ہوتی تو بھی یہی حال ہوتا۔ لوگ عمران خان سے بھی سوائے مایوسی کے کچھ نہیں پائیں گے۔ اور یہ بہت خطرناک ہو گی؟ کوئی فوجی حکمران اس طرح کی دھاندلی سے تو نہیں آتا۔ وہ تو آ جاتا ہے اور جو حکومت دھاندلی سے آئی ہو یا کسی اور طرح آئی ہو اس کی کتنی ہی اکثریت پارلیمنٹ میں ہو اسے ہٹا کے خود حکومت سنبھا ل لیتا ہے۔ اور ’’جمہوری حکمران‘‘ کے لئے ایک آدمی بھی اس کی اپنی پارٹی کا بھی کوئی آدمی اور جن لوگوں کو اس نے نواز نواز کے کیا بنا دیا ہو وہ بھی باہر نہیں نکلتا اس کے حق میں نعرہ نہیں لگاتا۔ جمہوریت کے حق میں آواز بلند نہیں کرنا۔ آٹھ دس برسوں کے بعد جمہوریت کا بخار چڑھایا جاتا ہے۔ وہی جمہوریت کی حمایت کرتا ہے جس نے آمریت کی اس سے بڑھ کر حمایت کی ہوتی ہے۔
اب محترم نواز شریف اور ’’صدر‘‘ زرداری یکجان دو قالب ہیں۔ ’’جمہوریت‘‘ کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ لپٹے ہوئے ہیں۔ کیا نواز شریف کی حکومت کے خلاف کوئی بات ہو جائے تو ’’صدر‘‘ زرداری کچھ کرے گا؟ اس نے ایم کیو ایم کے ساتھ ’’صلح‘‘ کی۔ حکومت میں حصہ دینے کی بات کی مگر جب نائن زیرو پر چھاپہ پڑا تو کیا ہوا؟ الطاف حسین بھائی نے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو ایک ہی صف میں کھڑا کر کے منہ زبانی چھترول کی۔ جب نواز شریف کی حکومت دوسری بار توڑی گئی تو بے نظیر بھٹو نے جنرل مشرف کو مبارکباد دی تھی۔ پھر میثاق جمہوریت کیا اس کے بعد پھر جنرل مشرف سے شارجہ میں معاہدہ کیا۔ رحمان ملک بھی ساتھ تھے۔ این آر او بی بی کے لئے کیا گیا تھا۔ پھر بی بی شہید ہو گئی اور رحمان ملک ’’صدر‘‘ زرداری کے ساتھ جب جنرل مشرف نے ان کے لئے صدارت چھوڑ دی۔
کراچی کے سب لوگ قائم علی شاہ اور شرجیل میمن کے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ایم کیو ایم نے کچھ کیا؟ اس کے برعکس انہوں نے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا۔ اسے عیش و عشرت العباد بنا دیا۔ کسی نے نہ عشرت کے لئے اور نہ قائم مقام علی شاہ المعروف عیش کیلئے کوئی بات کی۔
صرف چودھری نثار علی خان نے کہا قائم علی شاہ کے استعفیٰ کی ضرورت نہیں۔ ان کا شاید مطلب یہ ہے کہ یہ ایک غیرضروری بات ہے۔ وہ استعفیٰ دیں یا نہ دیں۔ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ پتہ نہیں چلا کہ انہوں نے اس بات سے قائم علی شاہ کی حمایت کی یا مخالفت کی ہے۔ شاہ صاحب اب اس مقام پر ہیں کہ ان کی مخالفت یا حمایت سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دونوں ایک جیسی ہیں۔
’’صدر‘‘ زرداری کو فرق پڑتا ہے۔ انہیں اپنی پوری پیپلز پارٹی سندھ میں ایک بھی اور ایسا آدمی نہیں ملا ورنہ اسے دوبارہ وزیراعلیٰ نہ بنایا جاتا۔ اسے تیسری بار بھی وزیراعلیٰ بنایا جائے گا۔ کوئی دوسرا ایسا آدمی ’’صدر‘‘ زرداری کے پاس نہیں ہے۔
بوڑھا آدمی بھی بچہ ہو جاتا ہے۔ یعنی پپو ہو جاتا ہے۔ پرویز رشید پپو کی تلاش میں مارے مارے نہ پھرتے رہیں۔ ’’صدر‘‘ زرداری سے اجازت لے کے چپکے سے قائم علی شاہ کو عمران خان کی خدمت میں پیش کر دیں ورنہ وہ دھاندلی کا سراغ لگاتے لگاتے اب پپو کی تلاش میں نکل کھڑے ہوں گے۔ قائم علی شاہ کبھی وزیراعلیٰ سندھ نہیں بن سکتے تھے۔ اگر الیکشن اس طرح نہ ہوتے پنجاب سے پیپلز پارٹی کی فراغت ضروری تھی۔ اپنے آپ کو ہروانے کا واقعہ نہیں ہو سکتا تھا اگر ن لیگ کو جتوایا نہ جاتا۔ پہلے سندھ اور وفاق میں ’’صدر‘‘ زرداری۔ اب پنجاب اور وفاق میں ن لیگ۔ پہلے پنجاب میں ن لیگ، اب سندھ میں پیپلز پارٹی؟
شاد باغ لاہور میں 6 بہن بھائی پپو کی طرح تھے۔ امدادی امداد میں تاخیر کی وجہ سے جل کر خاکستر ہو گئے۔ فائر بریگیڈ کی گاڑیاں دھکا سٹارٹ تھیں۔ وہ 15 منٹ کا فاصلہ ڈیڑھ گھنٹے میں طے کر کے پہنچیں تو تھک چکی تھیں۔ بے چارے ملازمین آگ بجھانے کی بجائے گاڑیوں کے پرزے ٹھیک کرتے رہے۔ لوگ بار بار یہ سنتے ہیں کہ حکمرانوں کے لئے کروڑوں روپے کی نئی شاندار بلکہ بلٹ پروف گاڑیاں خریدنے کے لئے فنڈ جاری کر دیے گئے ہیں مگر فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کے لئے ایک روپیہ نہیں ہے۔ یہ کیا نظام ہے۔ کیا یہ ملک چند لوگوں کے لئے بنایا گیا تھا؟ ایم این اے پرویز ملک کی باتیں اچھی ہیں۔ مگر کسی حکومتی آدمی کے پاس عوام کے لئے کرنے کا کوئی کام نہیں ہے۔ صرف باتیں اب تو ٹی وی چینل پر ہی سارے مسائل باتوں باتوں میں حل کرائے جاتے ہیں۔ مجھے تو جلنے والے ایک معصوم بچے کا چہرہ بالکل پپو کی طرح لگا مگر عمران کا پپو معصوم نہیں ہو سکتا۔
آخر میں ایک معروف شاعرہ ادیبہ اور کالم نگار فہمیدہ کوثر کی ایک غزل کے کچھ اشعار دیکھیے۔ پروفیسر فہمیدہ کوثر کی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ وہ نوائے وقت میں کالم بھی لکھتی ہیں۔
زیست کا یہ وبال رہنے دو
کچھ نہ کچھ تو کمال رہنے دو
چاروں جانب سے حبس پھیلا ہوا
ایک تازہ خیال رہنے دو
دنیا داری ہی دنیا داری ہے
میری جانب سوال رہنے دو
یاد ماضی سے لوٹ آئی ہوں
دیر تک اب نڈھال رہنے دو

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...