لاہور (جواد آر اعوان / نیشن رپورٹ) سکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں داعش کی موجودگی کا ٹھوس ثبوت نہیں ملا تاہم مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والی اس تنظیم کی موجودگی کے قلیل امکانات کے خاتمے کیلئے مشرقی افغانستان میں تحریک طالبان کی قیادت پر ہاتھ ڈالنا ضروری ہے کیونکہ آپریشن ضرب عضب کے موقع پر فرار ہونیوالے یہ افراد داعش کا ممکنہ پارٹنر بن سکتے ہیں۔ سکیورٹی ذرائع نے تجویز دی کہ کنڑ میں موجود ٹی ٹی پی کے مفرور عناصر کی جلد از جلد سرکوبی پاکستان افغانستان سرحدی علاقوں میں داعش کی موجودگی کے قلیل سے خطرے کو بھی ختم کردے گی۔ ذرائع نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان شاہداللہ شاہد نے گزشتہ سال ابوبکر البغدادی کے ہاتھ پر بیعت کا اعلان کیا تھا مگر یہ صرف شہرت حاصل کرنے اور یہ باور کرانے کی ایک کوشش تھی کہ ان کی تنظیم ابھی باقی ہے۔ سکیورٹی ماہرین نے کہا کہ انسداد دہشت گردی آپریشن کے باعث دہشت گردوں کو فنڈنگ کا نیٹ ورک ختم ہو گیا ہے اور انہیں اب داعش جیسی کسی تنظیم کا سہارا درکار ہے لہذا شاہد اللہ شاہد کے اعلان کی مخالفت کے باوجود فضل اللہ کی سربراہی میں ٹی ٹی پی داعش جیسی تنظیم سے مدد حاصل کر سکتی ہے۔ ٹی ٹی پی کو اگر داعش سے کچھ سپورٹ مل بھی گئی تو یہ جنوبی افغانستان میں داخل نہیں ہو سکتے جہاں افغان طالبان کو قوت حاصل ہے۔