’’ پپو اِزم ‘‘ سے عوام کو فائدہ ہوگا؟

ابھی ملک محمد رفیق رجوانہ نے پنجاب کی گورنر شپ کا حلف نہیں اٹھایا تھا کہ ’’اُن کی اہلیہ نے ’’ نوائے وقت ‘‘ کی لیڈی رپورٹر کو بتایا تھا کہ ’’ ہم گورنر ہائوس کے بجائے لاہور میں اپنے گھر میں ہی رہیں گے‘‘۔ حلف اٹھانے کے بعد گورنر رجوانہ صاحب نے بھی اِس طرح کی بات کی تھی۔
گورنر ہائوس کی فول پروف سکیورٹی؟
18 مئی کے اخبارات میں خبر شائع ہوئی کہ ’’ گورنر ہائوس پنجاب کی انتظامیہ نے گورنر ہائوس کی "Fool Proof Security کے لئے حکومتِ پنجاب سے ایک کروڑ 42 لاکھ روپے مانگ لئے ہیں‘‘ سکیورٹی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’ گورنر ہائوس کی سکیورٹی کے انتظامات انتہائی ناقص ہیں۔ خبر میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ’’ گورنر ہائوس میں سکیورٹی کے انتہائی ناقص انتظامات کب سے ہیں؟ 28 جنوری 2014ء تک چودھری محمد سَرور گورنر پنجاب کی حیثیت سے گورنر ہائوس میں رہے ۔ کیا اُس کے بعد سے ؟ اُس کے بعد تو قائمقام گورنر کی حیثیت سے سپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال بھی رہے کیا اُس وقت وہاں ’’ فول پروف سکیورٹی‘‘ نہیں تھی؟ اور وہ "Fool" کون ہے کون تھا اور اب کہاں ہے ؟ اور جب گورنر رجوانہ صاحب نے لاہور میں اپنے ذاتی گھر میں رہنے کا فیصلہ کرلِیا ہے تو کیوں نہ ایک کروڑ 42 لاکھ روپے کے خرچ سے جنوبی پنجاب کے کسی پسماندہ گائوں میں پینے کے صاف پانی کا انتظام کردیا جائے؟ ۔
ذوالفقار مرزا اور رابن ہُڈّ؟
سندھ کے سابق وزیرِ داخلہ ذوالفقار مرزادو تین روز پہلے مختلف نیوز چینلوں پر جینز اورپُرانے دور کے انگریزوں کی طرز کا ہَیٹ پہن کر دکھائی دئیے ۔ ’’ نوائے وقت‘‘۔ کی ایک قاریہ نے مجھ سے پوچھاکہ’’ انکل! یہ ذوالفقار مرزا ، انگلستان کے بادشاہ Richard-I کے دَور کے افسانوی کردار "Robin Hood" کا کردار کیوں ادا کر رہے ہیں؟ مَیں نے کہا کہ بیٹے! ’’ رابن ہُڈّ‘‘ کا کردار تو اُس وقت شروع ہوگا جب مرزا صاحب پیپلز پارٹی کے نو دولتیوں سے لُوٹا ہُوا مال لے کر غریبوں میں بانٹنا شروع کردیں گے۔ یہ تو مرزا صاحب کی "Net Practice" ہے۔ ادھر وزیراعلیٰ سندھ سیّد قائم علی شاہ کہتے ہیں کہ ’’ کوئی تو ہے کہ جِس نے ذوالفقار مرزا کو ہَیٹ پہنایا؟‘‘جو کوئی بھی ہے شاہ صاحب کو اس کا فوراً پتہ چلانا چاہیے۔ مرزا صاحب کی طرز کے ہَیٹ پہننے والوں کی تعداد میں اضافہ ہُوا تو اُن کی ’’ شاہی‘‘کے لئے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں کیونکہ ، زرداری صاحب تو کسی بھی وقت دبئی یا لندن پرواز کرجائیں گے ۔ ہندوستان پر حملہ کرنے والے نادر شاہ درانی اور احمد شاہ ابدالی کے فوجی ایک خاص قسم کی ٹوپی پہنتے تھے اور انہیں’’ٹوپی والے‘‘ کہا جاتا تھا جنہوں نے دہلی میں قتلِ عام کِیا تھا۔ مِیر تقی مِیر کا ایک شعر ہے ؎
’’ کوئی عاشق نظر نہیں آتا
ٹوپی والوں نے قتلِ عام کِیا‘‘
’’ پپو اِزم ‘‘ سے عوام کو فائدہ ہوگا؟
11 مئی 2013ء کے عام انتخابات میں "Punctures" (عُرفِ عام میں پینچرز) لگانے والے کسی ’’پپو‘‘ کا نام لِیا جا رہا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید کہتے ہیں کہ ’’ عمران خان نے انتخابات تبدیل کرنے والے کسی ’’پپو‘‘ کا نام لِیا ہے۔ پُوری قوم دیکھنا چاہتی ہے کہ وہ ’’پپو‘‘ کون ہے ہم بھی اُس پپو کو تلاش کر رہے ہیں ‘‘۔سوال یہ ہے کہ جناب پرویز رشید کو یہ کیسے معلوم ہوگیا کہ ’’ پُوری قوم اُس پپو کو دیکھنا چاہتی ہے ‘‘۔جب پرویز رشید صاحب جناب ذوالفقار علی بھٹو کے جیالے تھے اور بھٹو صاحب عام جلسوں میں بہت رش لے رہے تھے تو اُس وقت بھٹو صاحب کے مخالفین کہا کرتے تھے کہ’’ لوگ بھٹو صاحب کو سننے نہیں بلکہ اُنہیں دیکھنے کے لئے آتے ہیں ‘‘۔ جس پر بھٹو صاحب نے کہا تھا کہ ’’ کیا میں کوئی دلیپ کمار ہوں ‘‘۔ اب جناب پرویز رشید کو بتانا ہوگا کہ’’ Wanted Pappoo‘‘ کیا واقعی بھٹو کی طرح خوبصورت ہے کہ پوری قوم اسے دیکھنے کے لئے بے تاب ہے؟
1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں ، مَیں نے لاہور کے ایک آزاد امیدوار جناب محمد سلیم کِرلاؔ کو دریافت کیا اور اپنے روزنامہ ’’ سیاست ‘‘ لاہور میں اُس کا انٹرویو شائع کِیا ۔ مَیں نے قوم کو یہ آئیڈیا دِیا تھا کہ’’ بھٹو اِزم ‘‘ کی ناکامی کے بعد ’’ کِرلا ازم‘‘ میں ہی اُس کے مسائل کا حل ہے ۔ میرے بعد دوسرے اخبارات نے بھی ’’کِرلا ‘‘صاحب کے انٹرویوز شائع کئے اور بی بی سی اور وائس آف جرمنی کو بھی میری تقلید کرنا پڑی۔ نہ جانے کس کی ’’سازش‘‘سے جناب’’ کِرلا ازم‘‘ ہار گئے ۔اب میں کیا کرتا ؎
’’ قوم نے پروا نہ کی اُس گوہرِ یک دانہ کی‘‘
جناب پرویز رشید کے اِس اعلان کے بعد کہ’’ پوری قوم جناب پپو کو دیکھنا چاہتی ہے ‘‘۔ میرا بھی اشتیاق ہے کہ مَیں اپنے اور اپنی قوم کے مسائل کا حل ’’پپو اِزم ‘‘ میں تلاش کروں۔ جناب پرویز رشید کے اِس بیان سے مجھے مزید حوصلہ مِلا ہے کہ ’’ہم بھی (یعنی مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت) اُس پپوکو تلاش کر رہے ہیں ‘‘ ۔ جناب پرویز رشید بھی بھٹو صاحب کے ۔’’سوشلزازم‘‘ کو ناکام ہوتا دیکھ کر میاں نواز شریف صاحب کے قریب ہوگئے لیکن مجھے یقین ہے کہ اُن کے دِل میں ’’انقلاب ‘‘ کی چنگاری اب بھی سُلگ رہی ہے ۔یہ بھی ممکن ہے کہ مَیں اور جناب پرویز رشید متحد ہو کر بھوکے ننگے اور بے گھر عوام کو ’’پپو اِزم‘‘ کا قائل کر کے اُنہیں اِنقلاب کے لئے میدان میں لے آئیں ۔یہ میرا وہم بھی ہوسکتا ہے لیکن ‘ مجھے اِس طرح کے نعرے سنائی دے رہے ہیں کہ ؎
’’ ساڈا پپو آوے ای آوے ‘‘
’’ پپو آگیا مدان وِچّ ہے جمالو‘‘
’’ پپو ساڈا شیر اے ، باقی ہیر پھیر اے
’’جب تک سورج چاند رہے گا‘‘
’’پپو تیرا نام رہے گا‘‘
’’پپو جئے ہزاروں سال‘‘
مجھے تو ’’پپو ازم‘‘ کی مخالفت میںسیاسی جماعتوں کے جھنڈے اور بینرز بھی دکھائی دے رہے ہیں جِن پر لِکھا ہے ؎
’’ پپو ازم نا منظور، دفع دُور‘‘
’’ جو مسلمان پپو اِزم کی حمایت کرے گا اُس کا نکاح ٹُوٹ جائے گا ‘‘۔
’’پپو ازم پاکستان کے خلاف مغربی ممالک کی سازش ہے ‘‘۔
’’ حکومت پپو ازم اور اُس کے سہولت کاروں کی دہشت گردی کا خاتمہ کرے ورنہ ہم خود کردیں گے‘‘
پھر میں سوچتا ہُوں کہ اگر جنابِ پپو پکڑے گئے اور انہوں نے عام انتخابات میں پنکچرز لگانے کا اعتراف کرلِیا تو عمران خان وزیراعظم بن جائیں گے؟ اور اگر نہ بنے تو؟ اور اگر جناب پپو کو کسی خودکش حملہ آور یا ٹارگٹ کِلر نے قتل کردِیا تو پھر مجھے اور جناب پرویز رشید کو بھی پکڑ لِیا جائے گا ۔مَیں پکڑ دھکڑ سے بہت ڈرتا ہوں اور اُس سے پہلے تلاشی دینے سے متعلق میں اپنے کالم میں لِکھ چکا ہُوں کہ’’جب کِسی غیر ملکی ائیر پورٹ پر میری تلاشی لی جاتی ہے تو مجھے گُدگُدی ہونے لگتی ہے اور میں ہنسنے لگتا ہُوں لیکن میرا وہ معاملہ نہیں ہے جیسا کہ حضرتِ داغؔ دہلوی نے کہا تھا ؎
’’ مَے کشو! حضرتِ زاہد کی تلاشی لینا
کہ چھپائے ہُوئے وہ جام لئے جاتے ہیں ‘‘
اِس کے باوجود مجھے اب بھی گُمان ہے کہ’’ پپو ازم‘‘ سے عوام کوفائدہ ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن