نوازشریف کے قومی اسمبلی میں خطاب کے بعد اپوزیشن اتحاد میں دراڑیں آئیں

May 19, 2016

لاہور (سید شعیب الدین سے) پانامہ لیکس منظرعام پر آنے کے بعد تحریک انصاف نے وزیراعظم نوازشریف کیخلاف جس مہم کا آغاز کیا تھا وہ بالآخر سڑکوں، جلوسوں، دھرنوں اور گھیرائو کی دھمکیوں کے بعد منطقی انجام کو پہنچ کر اب قومی اسمبلی کے فلور پر آگئی۔ متحدہ اپوزیشن کی قیادت خورشید شاہ کے ہاتھ آگئی۔ خورشید شاہ پارلیمنٹ میں آنے سے قبل گھن گرج والا لہجہ اختیار کئے رہے، انہیںاس رویہ میں پارٹی چیئرمین بلاول زرداری کی آشیرباد حاصل تھی۔ اعتزاز نے سینٹ میں تلخ لہجہ اپنایا، وزیراعظم نوازشریف کی تقریر کے بعد متحدہ اپوزیشن کے ردعمل کی وجہ سے منظرنامہ بدلہ اتحاد میں درڑایں آئیں۔ یہ تاثر ابھرا ہے کہ قومی اسمبلی کے فلور پر خورشید شدہ کے بائیکاٹ کے اعلان نے ان دراڑوں کو اور وسیع کردیا۔ بائیکاٹ کے بعد متحدہ اپوزیشن نے جب میڈیا سے خطاب کیا، اس موقع پر جس طرح عمران خان، جہانگیر ترین، اعتزاز احسن دور کھڑے تھے، خورشید شاہ، شاہ محمود قریشی اور شیخ رشید فرنٹ لائن پر تھے، تحریک انصاف کے رہنمائوں نے شام کو ٹاک شوز میں پیپلز پارٹی کیخلاف رائے زنی کی، تاہم اگلے روز اجلاس میں صورتحال نے کروٹ لی اور عمران خان جن کا لہجہ پارلیمنٹ کے باہر خاصا تلخ اور توہین آمیز تھا، وہ سوبر دکھائی دیئے اور انتہائی مناسب الفاظ میں شواہد پیش کئے۔ قائد حزب اختلاف نے تفصیلاً خطاب کیا مگر انکے لہجے میں وہ تلخی دکھائی نہیں دی جس کا مظاہرہ وہ پارلیمنٹ کے باہر کرتے رہے۔ ایک اور اہم پیشرفت ہوئی ،آصف علی زرداری کے دست راست رحمن ملک نے لندن میں پریس کانفرنس کی جسے سیاسی حلقے آصف زرداری کی سیاسی منظر نامے پر واپسی قرار دے رہے ہیں۔ زرداری نے 3 رکنی کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا ہے مگر بلاول زرداری کے ترجمان نے اس کمیٹی کے وجود سے انکار کیا ہے۔ اس سے پیپلز پارٹی میں دو دھڑوں کے الزام کو مزید تقویت دی ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کی تقریر کو تجزیہ کار وزیراعظم کا مؤثر دفاع قرار دے رہے ہیں۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کے حوالے سے تو ہاتھ ہلکا رکھا مگر عمران خان پر تیزاندازی شدت سے کی۔ انکی پوری تقریر یہ ثابت کرنے پر موقوف رہی کہ عمران خان نہ ایماندار ہیں نہ صادق اور امین، پی پی پی اس سیاسی منظرنامے میں دوراہے پر کھڑی ہے، اگر اس نے جلد کوئی موقف اختیار نہ کیا تو بلاول اور آصف زرداری کے درمیان حائل خلیج مزید وسیع ہوجائیگی۔ یاد رہے ماضی میں بھی بے نظیر بھٹو اور انکی والدہ نصرت بھٹو میں چیئرپرسن کی کشمکش نے عوامی سطح پر لوگوں کو بہت مایوس کیا تھا، جیالے اب مزید ایسی کسی صورتحال کا سامنا کرنے پر آمادہ نہیں۔

مزیدخبریں