بالآ خر حکومت اپوزیشن کو ’’گھیر‘‘ جہاں پارلیمنٹ میں لے آئی وہاں اسے ایجی ٹیشن کی سیاست ترک کرکے مذاکرات کی میز پر لا بٹھایا ہے ،پالیمانی کمیٹی قائم کر کے اپوزیشن کو ٹرک کی ’’بتی‘‘ کے پیچھے لگا دیا ہے ،اپوزیشن کے اس طرز عمل نے نجی ٹی وی چینلوں پر ’’عدالتیں‘‘ لگانے والوں کو مایوس کر دیا کیونکہ اب اپوزیشن کی کوئی جماعت مذاکرات چھوڑ کر ایجی ٹیشن کی راہ اختیار کرنے سے رہی ،اگر کسی نے یہ سیاسی غلطی دہرائی تو اس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے ،اپوزیشن کو وزیر اعظم کے خطاب کے دوران ایوان سے واک آئوٹ کرنے کی غلطی کا جلد احساس ہو گیا اور اگلے روز ہی پارلیمنٹ میں واپس آگئی اور پھر سپیکر سردار ایاز صادق نے سید خورشید شاہ اور عمران خان کو قومی اسمبلی کے ایوان میں بات کرنے کا موقع دے کربڑی حد تک اپوزیشن کو راضی کر لیا ،اگرچہ سید خورشید شاہ اور عمران خان نے قومی اسمبلی میں اپنی تقریر کا حق استعمال کیا لیکن ان کا خطاب جارحیت سے محروم تھا ،عمران خان بڑی دیر تک اپنے بارے میں وضاحتیں کرتے رہے ،ان کے لہجے میں وہ کاٹ نہیں تھی جو بڑے بڑے جلسوں سے خطاب میں ہوتی ہے ،اس لئے کہا جا سکتا ہے دونوں رہنمائوں کا خطاب ’’میچ فکسنگ‘‘ کا منظر پیش کرتا تھا جس میں سپیکر نے ان کے خطا ب میں پر امن ماحول فراہم کیا،دوسری طرف حکومت کے کسی ’’کھلنڈرے‘‘ رکن نے نعرے بازی نہ کی ، آفتاب شیخ نے بھی تمام ارکان کو ڈسپلن میں رکھا ،البتہ ایوان میں حکومت اور اپوزیشن کے ارکان کے درمیان جملے بازی ہوتی رہی اور ایک دوسرے کو طعنے دیتے رہے ،حکومت نے اپوزیشن کو ایوان میں کھل کر بات کرنے کا موقع دے کر اس کے غصے کو بڑی حد تک ٹھنڈا کر دیا ،سید خورشید شاہ اور عمران خان وزیر اعظم کی عدم موجودگی اظہار خیال کرتے رہے لیکن خالی گیلریاں دیکھ کر انہیں افسوس ہو رہا تھا کہ انہیں داد دینے والا کوئی نہیں، اگرچہ حکومت کی طرف سے اپوزیشن کی طرف سے دو وزراء نے جواب دیا اورعمران خان پر جوابی حملے کرتے رہے لیکن ایسا دکھائی دیتا تھا حکومت اور اپوزیشن کے درمیان دوستانہ میچ ہو رہا ہے ایوان میں وزیر اعظم کے اوپننگ بیٹسمین چوہدری نثار علی خان بھی موجود تھے لیکن وہ اس دوستانہ میچ کا حصہ نہ بنے اور خاموشی سے ایوان سے اٹھ کر چلے گئے ،وفاقی وزراء اپوزیشن رہنمائوں سے’’ اٹکھیلیاں ‘‘ کرتے رہے ،حکومت اور اپوزیشن باہم شیر شکر نظر آئی ،دونوں ہنسی خوشی اپنے اپنے گھر واپس چلی گئیں ، پرویز رشید نے کہا ہے کہ اچھا ہوا کہ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے واضح کر دیا ہے کہ وزیراعظم کی تقریر کے بعد اپوزیشن نے جو کیاوہ واک آئوٹ تھا، اور نہ ہی بائیکاٹ اور کیٹ واک، سید خورشید شاہ نے ایوان میں جو کچھ کہا اسے تسلیم کرتے ہیں،خان صاحب اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر تین دن پہلے پاکستان پہنچے اور آج وہ اسمبلی میں پہنچ گئے ہیں ،پرویز رشید کی جانب سے ’’کیٹ واک‘‘ کے الفاظ کہے جانے پر اپوزیشن کی جانب سے شور شرابہ کیا گیا جس پر سپیکر نے سب کو چپ رہنے کی تنبیہ کی تاہم بعد ازاں سید خورشید شاہ نے کہا کہ یہ کیٹ واک تو نہیں تھا، البتہ پانامہ واک تھی اور حکومت کو ''کیٹ ''قرار دیدیا، سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کیٹ واک کا جملہ کارروائی سے حذف کرادیا،وزیردفاع خواجہ محمد آصف نے اپوزیشن کو پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لیے متفقہ طریقہ کار وضع کرنے کی پیشکش کی اور کہا سید خورشید شاہ سے خوش ہیں انہوں نے عمران خان کو ’’نکرے لا دیتا اے‘‘ انہوں نے عمران خان کو ’’میسنا ‘‘ قرار دیا اور کہا کہ سوشل میڈیا کو ان لوگوں نے ناپاک کردیا۔ خواجہ آصف کی اس بات پر تحریک انصاف کے ارکان نے احتجاج کی کوشش کی تو وزیردفاع نے کہا کہ کوئی بات نہیں سپیکر صاحب انہیں بولنے دیں، بچے ہیں ان کے بولنے سے کچھ نہیں ہوتا جس کے بعد اپنی تقریر جاری رکھی تاہم وہ اپنے مخصوص انداز میں عمران خان کو کوسنے سناتے رہے۔
حکومت نے پارلیمانی کمیٹی قائم کر کے اپوزیشن کو ٹرک کی ’’بتی‘‘ کے پیچھے لگا دیا
May 19, 2016