بعض اللہ لوک قِسم کے خواتین و حضرات کا خیال ہے کہ ’ جو سیاستدان عبادت سمجھ کر سیاست کرتے ہیں اُن کی عزت بہت ہوتی ہے “ لیکن جو اللہ لوک نہیں ہیں اُن کا کہنا ہے کہ” عبادت اور سیاست کو گڈ مڈ کیوں کِیا جائے؟ جب اللہ تعالیٰ نے عبادت کے لئے پانچ وقت مقرر کر رکھے ہیں تو باقی وقت میں سیاست کیوںنہ کی جائے؟ “ ایک مشہور شعر میں اگر لفظ محبت کے بجائے سیاست جڑ دِیا جائے تو اُس کی شکل یوں ہوگی....
” کروں گا کیا جو ، سیاست میں ہوگیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا!“
وزیراعظم نوازشریف نے 16 مئی کو قومی اسمبلی کے ایوان میں بڑے فخر سے بتایا کہ ” مَیں نے پہلے کاروبار کِیا اور پھر سیاست میں آیا ۔ مَیں اُن لوگوں میں سے نہیں ہُوں جو پہلے سیاست میں آتے ہیں اور پھر کاروبار کرتے ہیں “۔ عام لوگوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ کوئی شخص پہلے سیاست میں آئے یا کاروبار کرے؟ اُنہیں اِس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ اپوزیشن جماعتوں کے ممبرانِ قومی اسمبلی نے تو جنابِ وزیراعظم کو اِس لئے ایوان میں مدعو ( طلب) کِیا تھا کہ وہ پانامہ لِیکس کے انکشافات کے بعد اُن پر اور اُن کے خاندانوں کے افراد پر لگائے گئے الزامات کے جوابات دیں ۔ وزیراعظم صاحب نے ” تقریر شقریر“ تو کی پھر یہ جا اور وہ جا؟
وزیراعظم کی ” کامیاب تقریر“ سے خوش ہو کر ایوان میں مہمانوں کی گیلری میں رونق افروز ” دیکھو دیکھو کون آیا؟ شیر آیا شیر آیا“ کے نعرے لگانے والوں کا خیال تھا کہ ” اگر وزیراعظم صاحب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کر کے ایک ہی بار اپوزیشن کا ” مکّو ٹھپ “ دیتے تو اچھا ہوتا “۔ سینٹ میں قائدِ حزبِ اختلاف چودھری اعتزاز احسن کی خواہش تھی کہ” جناب وزیراعظم پہلے سینٹ کے ارکان سے خطاب کریں “۔ اُنہوں نے اپنی ” نثری نظم“ میں کہا تھا ” وزیراعظم ہماری گلی (سینٹ کے ایوان) میں تو نہیں آئے لیکن سُنا ہے کہ وہ ہمارے محلے ( قومی اسمبلی کے ایوان) میں آ رہے ہیں “۔ بیرسٹر اعتزاز احسن کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہُوئے ” شاعرِ سیاست “ نے کہا ....
” کسی نے کہا” وہ تو گھبرا رہے ہیں “
کئی لوگ بولے کہ ”شرما رہے ہیں “
” ہماری گلی سے ، کیوں کترا رہے ہیں؟
سُنا ہے ، محلّے میں وہ آ رہے ہیں “
عام طور پر خواتین و حضرات اِس خوف میں مُبتلا رہتے ہیں کہ ” محلّے والے کیا کہیں گے؟“ لیکن محلّے والوں (رقیبوں) نے وزیراعظم کے لئے دِیدہ و دِل فرشِ راہ کردئیے۔ اُردو، پنجابی اور ہندی فارمولا فلم کی طرح جناب وزیراعظم ایوان میں تشریف لے گئے ۔ قائدِ حزبِ اختلاف سیّد خورشید شاہ کو سات سمندر پار مقیم اپنے لیڈر جنابِ آصف علی زرداری سے ہدایات پہلے ہی مل چکی تھیں۔ حُکم کے مطابق شاہ صاحب نے جنابِ وزیراعظم کو پیغام بھجوادِیاتھا کہ ”بے خوف و خطر تشریف لائیں ، حزبِ اختلاف کا کوئی بھی رُکن چُوں تک نہیں کرے گا“۔ سیّد خورشید شاہ کی ”عزتِ سادات“ نہ صِرف قائم رہی بلکہ اُس میں اضافہ بھی ہُوا ۔ متحدہ اپوزیشن کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال کر عمران خان زرداری صاحب سے مات کھا گئے۔ بیرسٹر اعتزاز احسن بھی حیرت زدہ تھے کہ اِس فارمولا فلم میں اُن کا کوئی چھوٹا موٹا رول ہی نہیں تھا؟ گلا پھاڑ پھاڑ کر وزیراعظم نے استعفیٰ مانگنے والے چیئرمین بلاول بھٹو کو اُن کے بابا سائِیں نے پیغام بھجوا یا کہ ”میرے پیارے بیٹے! میاں صاحب سے استعفیٰ نہ مانگو، وہ خوش ہوگئے تو اُن سے کوئی اور چیز مانگ لیں گے!“
قومی اسمبلی کے ایوان میں چلائی گئی فارمولا فلم میںجناب شاہ محمود قریشی کا کوئی کردار ( Role) تھا یا نہیں؟ فی الحال عمران خان نہیں جانتے اور نہ ہی ” جب آئے گا عمران “ کا گیت گانے والے گلوکار عطاءاللہ خان عیسیٰ خیلوی۔ دروغ برگردنِ راوی کہ ” سیّد خورشید شاہ کی مختصر تقریر (مکالمے) لِکھنے کا کردار قریشی صاحب نے ادا کِیا ۔ عمران خان لندن میں بہت سے ضروری کام چھوڑ چھاڑ کر اپنی آف شور کمپنی کے حقائق اور شریف خاندان کی آف شور کمپنیوں کے سنسنی خیز انکشافات کا دفتر لے کر بھاگم بھاگ اسلام آباد آگئے تھے ۔ نہ جانے ایوان کی کِس گیلری میں بیٹھے عمران خان کے چاہنے والے کیا سوچ کر عمران خان کو” شیروں کا شکاری “ کہہ کر انہیں ”ہلا شیری“ دے رہے تھے؟
دروغ برگردنِ شعیب بن عزیز کہ ”سیّد خورشید شاہ ( دراصل جنابِ آصف زرداری) سے میاں نواز شریف کی دوستی کا نیا دَور شروع کرنے کا کمال خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے دکھایا۔ اُنہوں نے سابق وزیراعظم سیّد یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کی بازیابی پر اُن کے گھر جا کر باپ بیٹے سے جپّھی ڈال کر جنابِ گیلانی کو یہ یقین دہانی بھی کرا دی تھی کہ ” مَیں آئندہ جنابِ زرداری سے لوٹی ہُوئی قومی دولت وصول کرنے کے لئے انہیں سڑکوں پر گھسیٹنے کی ”شیر بھبکی“ نہیں دوں گا“ لیکن ایوان میں جنابِ وزیراعظم کی آمد سے قبل دیکھتی آنکھوں اور سُنتے کانوں نے دیکھا اور سُنا کہ ” تین کشمیری نژاد وفاقی وُزراءخواجہ سعد رفیق ، جناب اسحاق ڈار اور خواجہ محمد آصف نے قائدِ حزب اختلاف سیّد خورشید شاہ کی نشست پر جا کر اُن سے مسکراہٹوں کا تبادلہ کِیا۔ خواجہ محمد آصف نے تو....
”بِنتی کر ت ہُوں ، پاﺅں پڑوں تو رے سیّاں رے! “
کا گیت گا کر شاہ صاحب کے پاﺅں بھی چُھوئے“۔ شاہ صاحب کی ”چُھو“ تو رسمی تھی۔ اصل ” چُھو“ تو جنابِ زرداری نے بذریعہ ٹیلی فون بھجوائی تھی ۔
جنابِ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں جنابِ آصف زرداری کو لندن میں مئی 2006ءمیں محترمہ بے نظیر بھٹو سے اپنے ”میثاقِ جمہوریت“ کی یاد دلائی اور ایوان کو بھی بتایا کہ” احتساب کا جامع نظام تو میثاقِ جمہوریت کی ایک شِق تھی“۔ جی ہاں! اُسی احتساب کے ” جامع نظام“ کے تحت تو جنابِ زرداری کا احتساب کا عمل قیامت کے دِن پر چھوڑ دِیا گیا ہے ۔ جنرل پرویز مشرف صدر ہوں یا آصف زرداری یا وزیراعظم نواز شریف ، اِن تینوں کے اتحادی کی حیثیت سے ”ثواب “ تو مولانا فضل اُلرحمن کو ہی ملے گا ۔
مسلم لیگ ن کے صدر کی حیثیت سے وزیراعظم نواز شریف قائداعظم کی کُرسی پر بیٹھے ہیں ۔ پاکستان قائداعظم نے بنایا تھا۔ مولانا فضل اُلرحمن کے والد صاحب مولانا مفتی محمود کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ ” خُدا کا شکر ہے ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے “۔مولانا فضل اُلرحمن کے ساتھ (17 مئی کو ) ڈیرہ اسمعیل خان میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہُوئے وزیراعظم صاحب نے اعلان کِیا کہ ” مسلم لیگ ن اور مولانا فضل اُلرحمن کی جمعیت عُلماءاسلام مِل کر ” نیا پاکستان“ بنائیں گی ۔ جنابِ وزیراعظم کے ذہن میں اُس وقت یقیناً نابِ آصف زرداری اور اُن کی پارٹی بھی ہوگی؟ اِس لئے عمران خان اور ” نیا پاکستان “ بنانے کے دوسرے دعویدار تو ہار گئے ۔ جنابِ زرداری سب پر بھاری تھے اور اب مولانا فضل اُلرحمن کی باری ہے۔ بقول ” شاعرِ سیاست“ ....
” پارلیمنٹ میں جوڑ توڑ ہے، جیسے کاروکاری
کل جو رقِیب تھے ، اُن میں دیکھو ہوگئی گوڑھی یاری
ہوتی رہی ہے ہوتی رہے گی بھوکے عوام کی خواری
زرداری بھاری تھے ،اب ہے مولانا کی باری؟“
oo