کسان پیکج بظاہر آئین کی خلاف ورزی ہے حکومت نے معا ملات پارلیمنٹ میں نہیں لانے تواسے تالا لگا دے:سپریم کورٹ

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+نیشن رپورٹ) سپریم کورٹ نے’’ کسان پیکج‘‘ کی قانونی و آئینی حیثیت کی وضاحت کے لئے وفاقی حکومت سے جواب طلب کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کسان پیکج حکمرانوں کی ذاتی جیب نہیں بلکہ عوام کے خون پسینہ سے ادا کئے گئے ٹیکسوں کا پیسہ ہے، پارلیمنٹ کی اجازت کے بغیر کسان پیکج لا کر حکومت نے آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے، اگر حکومت من مرضی کرنا چاہتی ہے تو پارلیمنٹ کے اجلاس نہ بلایا کرے، حکومت کسان پیکج کے پیسے ٹھکا ٹھک تقسیم کر رہی ہے، آخر جلدی کس بات کی ہے؟ جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل دو رکنی بنچ نے سماعت کی توعدالت کے استفسار پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کسان پیکج آئین کے آرٹیکل 84کے تحت جاری کیا گیا ہے، حکومت کا اختیار ہے کہ وہ اپنی مرضی سے بجٹ کے اخراجات کی مدات طے کرسکتی ہے، کسان پیکج کے تحت مختص رقم کے 20 ارب میں سے 10 ارب روپے بانٹ بھی چکے ہیں، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ حکومت نے کسان پیکج کے پیسے تقسیم کر دئیے ہیں اور پارلیمنٹ سے منظوری تک نہیں لی ہے، اخراجات میں پارلیمنٹ کی اجازت سے متعلق آئین کے آرٹیکل 84 کا دروازہ پہلے بند تھا اب اسے تالا لگا دیا گیا ہے، کسان پیکج حکمرانوں کی ذاتی جیب نہیں بلکہ عوام کے خون پسینہ سے ادا کئے گئے ٹیکسوں کا پیسہ ہے، پارلیمنٹ کی اجازت کے بغیر کسان پیکج لا کر حکومت نے بادی النظر میں آئین کی کھلی خلاف ورزی کی ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اگر حکومت معاملات کو پارلیمنٹ میں لا کر حل نہیں کر سکتی تواسے تالا لگا دے،آئین میں سٹیک ہولڈر سیاسی جماعتیں نہیں طریقہ کار ہوتا ہے، عوام نے پارلیمنٹ کو اپنے پیسے کا محافظ مقرر کیا اسی کو جمہوریت کہتے ہیں اور آئین جمہوریت کا عکاس ہے۔ فاضل عدالت نے حکومتی وکیل سے استفسار کیا کہ کیا فرٹیلائزر پر دی جانے والی سبسڈی آئین کے آرٹیکل 84کے مطابق ہے۔ اگر نیشنل اسمبلی سبسڈی کی سپلیمنٹری گرانٹ کی منظوری نہ دے تو کیا ہوگا، اس پر حکومتی وکیل نے یقین دہانی کرائی کہ دی جانے والی سپلیمنٹری گرانٹ کی منظوری قومی اسمبلی سے لی جائے گی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے وزیر خزانہ کسان پیکج کو پارلیمنٹ میں کیوں نہیں لے کر آئے۔ جب آپ نے معاملات پارلیمنٹ میں لا کر حل نہیں کرنے تو اسے تالا لگا دیں۔ بجٹ تقریر میںکہا جاتا ہے ہر پاکستانی کے پاس زندگی کی تمام سہولیات ہوں یہ صرف خواہشات ہیں۔ خواہشات کو فنانس ایکٹ نہیں کہا جا سکتا۔

ای پیپر دی نیشن