سلطان العارفین ابو الحسن خرقانی

مولانا محمد کلیم اللہ حنفی
خرقان ایران کے شہر بسطام کا نواحی علاقہ ہے، حضرت بایزید بسطامی سال میں ایک مرتبہ دہستان کے قبرستان میں شہداء کی قبور پر جاتے۔ اس دوران آپ خرقان نامی بستی سے گزرتے تو ایسے سانس لیتے جیسے کچھ سونگھ رہے ہوں۔ مریدوں نے عرض کی حضرت آپ کیا سونگھتے ہیں ،آپ نے فرمایا مجھے اس بستی سے ایک مردخدا ور ولی اللہ کی خوشبو آ رہی ہے۔حضرت بایزید بسطامی جب فوت ہوئے تو آپ کو اپنے شہر بسطام میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ وقت گزرتا رہا 352ھ میں یہاں ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام علی بن احمد اور کنیت ابو الحسن تھی۔سلوک و احسان میں آپ نے وہ مقبولیت و محبوبیت پائی ہے جو بہت کم کسی کے نصیب میںآئی ہے۔ سلسلہ نقشبندیہ کے شجرہ طریقت میں آپ کا نام بہت روشن ہے۔ بچپن سے ہی اولیاء اللہ سے قلبی محبت، علم دین سے گہری وابستگی اور سلوک و احسان سے بے حد شغف تھا۔
آپ 12 سال تک بلاناغہ خرقان سے بسطام تک پیدل سفر کرتے اور حضرت بایزید بسطامی کی قبر پر حاضر ہوئے اور اللہ تعالیٰ سے یوں دعاکی یا اللہ آپ نے اپنے محبوب بندے سلطان العارفین حضرت بایزید بسطامی کو جو اپنی محبت و رضا اور معرفت نصیب فرمائی تھی مجھے بھی نصیب فرما۔بارگاہ ایزدی میں آپ کی دعا نے شرف قبولیت پائی اور آپ مرجع خلائق بن گئے۔آپ کی خانقاہ پر یہ خصوصیت یہ تھی کہ بڑے بڑے رئیس، مالدار، حکیم و طبیب، سائنسدان، شعراء اور اھل علم بھی اس سے مستفیض ہوتے۔ یہاں تک کہ وقت کے بادشاہ بھی آپ کی خانقاہ کے خوشہ چین تھے۔ آپ اپنی خانقاہ میں لوگوں کو اللہ اللہ کراتے، ان کے دل میں معرفت رب ذوالجلال کو پیوست کرتے، سنت نبویہ کا عادی بناتے، اخلاقی تربیت فرماتے، اسلام کا معاشرتی طرز بتلاتے اور زندگی گزارنے کا اسلامی طریقہ سمجھاتے۔
چنانچہ ایک مرتبہ آپ نے خانقاہ میں ایک بار مجلس ذکر کرائی۔ اللہ اللہ کی ضربیں لگوائیں، اور لفظ اللہ کے فضائل گنوائے کہ اس نام سے دلوں کو سکون ملتا ہے، پریشانیاں دور ہوتی ہیں،آفات و بلیَات سے انسان محفوظ ہوتا ہے، ایمان مضبوط ہوتا ہے۔اللہ کی طرف سے رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انسان جہنم سے بچ کر جنت کا مستحق قرار پاتا ہے۔ اسی مجلس میں حکیم بو علی سینا موجود تھے، بوعلی سینا علم طب و حکمت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے، انہوں نے مجلس ذکر کے بعد پوچھا حضرت ایک لفظ کے اتنے سارے فضائل ؟؟ آپ نے برجستہ فرمایا : اے خر تو چہ دانی؟؟ اے گدھے تجھے کیا پتہ ؟ بو علی سینا شرم سے پانی پانی ہوگئے تو آپ نے فرمایا : میں نے تمہیں یہ مسئلہ سمجھانا تھا ورنہ مجھے کسی کو گدھے کہنے کا شوق نہیں۔ اب دیکھ تجھے گدھا کہنے کا اثر اتنا ہے کہ تجھے پسینے چھوٹ پڑے ہیں توبتا اللہ کے نام کی لذت اور تاثیر کتنی ہوگی ؟؟
ایک مرتبہ آپ نے اپنے مریدوں سے کہا کہ خانقاہ کی صفائی کرو، مریداٹھے اور خانقاہ کی صفائی شروع کر دی، کوئی جھاڑو دے رہا تھا اور کوئی بستروں کو جھاڑ رہا تھا، تھی مٹی اڑ رہی تھی۔آپ نے ایک مرید سے کہا کہ میرے سر میں کنگھی کرو۔ مرید آپ کے بالوں کو کنگھی کر رہا تھا، اتنے میں سلطان محمود غزنوی حضرت کی خانقاہ میں آئے۔ مٹی اڑ رہی ہے، مرید صفائی کر رہے ہیں، حضرت اس حالت میں سر جھکائے بیٹھے ہیں۔ جب بادشاہ کے آنے کی خبر ہوئی تو مرید ذرا گھبرائے اور آ کر عرض کی حضرت، حضرت، حضرت!!آپ نے سر اٹھایا، پوچھا کیا بات ہے ؟ وہ کہنے لگا کہ حضرت بادشاہ سلامت سلطان محمود غزنوی خانقاہ میں تشریف لائے ہیں تو آپ کی زبان سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلے نعم الامیر علی باب الفقیر و بئس الفقیر علی باب الامیر۔ اچھا بادشاہ وہ ہے جو فقیروں کے پاس چل کر آئے اور برا فقیر وہ ہے جو بادشاہوں کے دروازے پر جائے۔
کہا کہ اچھی بات ہے،آنے دو !سلطان آکر ملا، ملاقات کی ہدیہ دیا تو آپ نے قبول نہیں فرمایا: دوبارہ عرض کی دوبارہ انکار کر دیا۔ جب اس نے اصرار کیا تو آپ نے ایک مرید سے کہا کہ خشک روٹی لاؤ۔ وہ لایا آپ نے بادشاہ سے کہا کہ اسے کھاؤ جب اس نے ایک لقمہ توڑا اور منہ کے اندر ڈالا تو منہ میں چلا گیا لیکن حلق سے نہیں اتر رہا تھا۔ گلے میں پھنس گیا آپ نے پوچھا کیا بات ہے اس نے کہا کہ گلے سے نہیں اتر رہا آپ نے فرمایا اسی طرح آپ کی تھیلی میرے گلے میں پھنسی ہوئی ہے وہ نیچے نہیں اتر سکتی۔سلطان محمود غزنوی آپ کی محفل میں بیٹھے۔ اس محفل کے اثرات مرتب ہونا شروع ہوئے دل سے نخوت، کبر اور بڑائی مٹ گئی اور عاجزی انکساری پیدا ہونے لگی صحبت ولی کا اثر ظاہر ہوا۔ جب واپس ہونے لگے تو خواجہ ابو الحسن خرقانی نے اٹھ کر رخصت کیا۔ کسی نے پوچھا کہ جب آئے تو نہیں اٹھے جب گئے تو آپ اٹھے؟ فرمایا جب وہ آیا تو خود کو بادشاہ سمجھ کر آیا دل سے تکبر چھلک رہا تھا اور جب رخصت ہونے لگا تو عاجزی پیدا ہو چکی تھی۔
سلطان محمود غزنوی مشہور مسلمان بادشاہ گزرے ہیں،وہ موجودہ دور کے مسلمان حکمرانوں جیسے مسلمان نہیں تھے بلکہ دین کو سمجھنے والے اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے والے بادشاہ تھے۔ انہوں نے 997ء سے 1030ء تک 33 سال حکومت کی۔ آپ کی وسیع سلطنت میں موجودہ مکمل افغانستان،ایران اورپاکستان کے کئی حصے اور شمال مغربی بھارت شامل تھا۔ وہ تاریخِ اسلامیہ کے پہلے حکمران تھے جنہیں سلطان کا لقب دیا گیا فقہ حنفی پر عمل پیرا تھے،چنانچہ سلطان محمود غزنوی نے فقہ پر ایک کتاب ’’التفرید‘‘ کے نام سے لکھی جس میں کم و بیش فقہ کے ساٹھ ہزار مسائل تھے۔ برصغیر میں ہندوؤں کے غرور کی علامت سومنات کے مندر کو 1026 میں فتح کیا،ہندوں برہمنوں نے محمود غزنوی سے لجاجت سے درخواست کی کہ اس بت کی حفاظت کے عوض اسے بہت زیادہ دولت دی جائے گئی تو سلطان نے یہ کہہ کراس آفر کو ٹھکرا دیا کہ وہ بت شکن ہے بت فروش نہیں۔ سلطان محمود غزنوی نے 1030 میں 59 سال کی عمر میں وفات پائی۔غزنی کے موجودہ قصبے سے تین میل باہر اس کا مقبرہ ہے۔
فتح سومنات سے پہلے سلطان محمود غزنوی خانقاہ خرقان میں خواجہ ابو الحسن خرقانی سے ملے اور عرض کی کہ حضرت میں سومنات پر حملے کا ارادہ رکھتا ہوں دشمن تعداد اور اسلحے میں کافی زیادہ ہے، مقابلہ بہت سخت ہے آپ دعا فرما دیجیے، خواجہ ابو الحسن خرقانی نے اپنا جبہ سلطان محمود کو دیا اور کہا کہ اسے اپنے ساتھ لے جائیں جہاں ضرورت پڑے وہاں اس کو سامنے رکھ کر اللہ سے دعا کرنا ان شاء اللہ جنگ میں فتح ہوگی۔ سومنات کی جنگ کے دوران سلطان محمود غزنوی نے جبہ سامنے رکھا اور یوں دعا کی:الٰہی اس خرقہ کی آبرو کے صدقے میں مجھے ان کافروں پر فتح عطا کر، مجھے یہاں سے جو مال غنیمت ملے گا درویشوں کو دے دوں گا۔جنگ فتح ہوئی اور سلطان فاتح بن کر وہاں سے لوٹا۔ کافی عرصہ بعد سلطان شکریہ ادا کرنے کے لیے خانقاہ خرقان پہنچا اور سارا واقعہ سنایا۔ خواجہ ابو الحسن خرقانی نے پوچھا کہ سلطان یہ بتائو تم نے کیا دعا کی تھی، سلطان نے بتایا کہ میں نے دعا کی تھی کہ مجھے سومنات کا فاتح بنا، خواجہ ابو الحسن خرقانی نے سنا تو فرمانے لگے : سلطان تو نے بہت سستا سودا کر لیا، اگر آپ یہ دعا کرتے کہ مجھے ساری دنیا کا فاتح بنا تو اللہ آپ کو ساری دنیا کا فاتح بنا دیتے۔
سلطان محمود غزنوی فوت ہوئے کسی نے خواب میں دیکھا کہ سلطان بادشاہوں کی طرح جنت میں سیر کر رہا ہے، پوچھا کیا گزری ؟ سلطان نے جواب دیا کہ میں جب خانقاہ خرقان میں خواجہ ابو الحسن خرقانی کے پاس حاضر ہوا تو وہاں کے درویش خانقاہ کی صفائی میں مصروف تھے، مٹی اڑ رہی تھی، جب میں وہاں سے گزرا تو اس نیت سے مٹی کو منہ سے نہ ہٹایا کہ اللہ والوں کی خانقاہ کی بابرکت مٹی ہے اللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایا تو نے میرے ولی کی خانقاہ کی مٹی کی قدر کی اس لیے اس کی برکت سے میں تیرے چہرے کو جہنم کی آگ سے محفوظ کرتا ہوں۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...