لندن + ہیگ (عارف چودھری + نیوز ایجنسیاں+ نمائندہ نوائے وقت+ نوائے وقت رپورٹ) عالمی عدالت انصاف نے پاکستان کا مؤقف جس میں کہا گیا تھا کہ یہ کیس عالمی عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا‘ مسترد کر دیا ہے۔ عالمی عدالت کے سربراہ رونی ابراہام نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ جب تک عالمی عدالت بھارتی درخواست پر حتمی فیصلہ نہیں کرتی‘ دہشت گرد کلبھوشن یادیو کو سزائے موت نہ دی جائے۔ عالمی عدالت کیس کی سماعت کا مکمل اختیار رکھتی ہے۔ آرٹیکل 2-1 کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔ ججز کے 11 رکنی پینل کی طرف سے محفوظ کئے گئے فیصلے کا اعلان پینل کے صدر رونی ابراہام نے پڑھ کر سنایا۔ جج رونی ابراہام نے فیصلہ دیتے ہوئے کہا یادیو کو سزائے موت آرمی ایکٹ کے تحت سنائی گئی۔ کلبھوشن یادیو کو خطرات سے محفوظ رکھا جائے۔ اس کی سکیورٹی کی ذمہ دار حکومت پاکستان ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں پاکستان کا یہ دعویٰ درست نہیں کہ کلبھوشن کا معاملہ ویانا کنونشن کے تحت نہیں آتا اور ویانا کنونشن دہشت گردی اور جاسوسی کے الزام میں زیرحراست افراد پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اس معاملے کی ابتدائی سماعت میں پاکستان کی جانب سے دلائل دیتے ہوئے بیرسٹر خاور قریشی نے کہا تھا کہ ویانا کنونشن کے تحت عالمی عدالت انصاف کا دائرہ اختیار محدود ہے اور کلبھوشن کا معاملہ عالمی عدالت میں نہیں لایا جا سکتا۔ کلبھوشن تک انڈین حکام کو قونصلر رسائی کے بارے میں عدالت نے کہا ہے کہ یہ حق ویانا کنونشن کی شق میں تسلیم کیا گیا ہے اور عدالت سمجھتی ہے کہ اس سلسلے میں انڈیا کی جانب سے جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ قرین قیاس ہیں۔ جج نے کہا کہ انڈیا کی جانب سے درخواست میں کلبھوشن کی سزا کے حوالے سے جس فوری خطرے کی نشاندہی کی گئی تھی وہ موجود ہے اور پاکستان نے اس سلسلے میں کوئی یقین دہانی نہیں کروائی کہ وہ عدالت کا فیصلہ آنے تک کلبھوشن کو پھانسی نہیں دے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے کہا کہ کلبھوشن کو اگست 2017ء تک پھانسی نہیں دی جائے گی جس کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے بعد اسے کبھی بھی سزائے موت دی جا سکتی ہے چاہے اس وقت تک عدالت کا حتمی فیصلہ آیا ہو یا نہیں۔ پاکستان کی جانب سے گزشتہ سماعت پر کہا گیا تھا کہ یہ معاملہ ہنگامی نوعیت کا نہیں جیسا کہ انڈیا کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں کہا گیا ہے۔ عالمی عدالت انصاف کا کہنا ہے کہ اپیل کے فیصلے تک پاکستان کلبھوشن کی سزا پر عمل درآمد روکنے کو یقینی بنائے‘ اس کیس کو جلد سننا ہوگا۔ جج رونی ابراہام کی سربراہی میں11رکنی پینل نے گزشتہ سماعت پر دونوں ملکوں کے وکلاء کے دلائل کے بعد کیس کا محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔ جج رونی ابراہم نے کہا کہ بھارت نے کلبھوشن تک قونصلر رسائی مانگی۔ کلبھوشن یادیو کو پاک آرمی ایکٹ 1952 کے تحت سزا سنائی گئی۔ پاکستانی قوانین کے مطابق کلبھوشن کو چالیس روز میں اپیل کا حق دیا گیا۔ جج نے کہا کہ بھارت ہمیں کیس کے میرٹ پر مطمئن نہیں کرپایا۔ یہ ابھی پتہ نہیں کہ قانون کے مطابق یادیو نے اپنی سزا کے خلاف اپیل کی یا نہیں۔ بھارت کا دعویٰ ہے کہ یادیو بھارتی شہری ہے اور پاکستان بھی یہ مانتا ہے۔ پاکستان اور بھارت ویانا کنونشن کے فریق ہیں پاکستان نے بھارت کو بتایا تھا کہ یادیو تک قونصلر رسائی بھارتی تعاون کے تناظر میں دی جائے گی۔ مکمل شواہد کے بعد ہی بھارت کو ریلیف مل سکتا ہے۔ جج نے کہا کہ عدالت صرف اسی وقت فیصلہ سنا سکتی ہے جب اس کا اختیار ثابت کیا جاسکے۔ عالمی عدالت اس معاملے کی سماعت کا اختیار رکھتی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان ویانا کنونشن کے تحت قونصلر رسائی پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ پاکستان کی قونصلر رسائی دینے میں ناکامی ویانا کنونشن کے دائرے میں آتی ہے۔ واضح رہے کہ 15مئی پیر کو کیس کی سماعت کے دوران پاکستان نے کلبھوشن یادیو سے متعلق عالمی عدالت انصاف کے دائرہ کار کو چیلنج کردیا تھا۔ نیدرلینڈز کے شہر دی ہیگ میں قائم عالمی عدالت انصاف میں انڈین بحریہ کے سابق افسر کلبھوشن یادیو کو پاکستان میں پھانسی کی سزا سنائے جانے کے معاملے پر ہونے والی سماعت میں پاکستان نے کلبھوشن یادیو سے متعلق عالمی عدالت انصاف کے دائرہ کار کو چیلنج کردیا۔ وزارت خارجہ کے افسر ڈاکٹر فیصل نے عالمی عدالت میں پاکستان کا موقف پیش کیا ۔ ڈاکٹر فیصل نے کہا کلبھوشن نے پاکستان میںدہشت گردی کی کارروائیوں کا اعتراف کیا ہے اور معصوم شہریوں کو نشانہ بنانے کا اعتراف کرچکا ہے۔ پاکستان دہشت گردوں سے نہیں ڈرے گا ، کلبھوشن یادیو کی گرفتاری پر بھارت کو آگاہ کیا مگر بھارت نے کلبوشن یادیو کے پاسپورٹ کے مسئلے پر خاموشی اختیار کیے رکھی۔ اٹارنی جنرل پاکستان اشتر اوصاف نے کہا ہے کہ بھارت کا مقدمہ ٹھوس نہیں، فیصلے سے مقدمے میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی۔ مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچایا جائیگا۔ عبوری اقدامات کا عدالت کے حتمی فیصلے پر اثر نہیں پڑے گا۔ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے سے مقدمے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یقین ہے بھارت اپنی مذموم سرگرمیاں چھپا نہیں سکے گا۔ بھارت کو ایک سال بعد کلبھوشن کے خاندان کے ویزے کا خیال آیا۔ عالمی عدالت نے کسی بھی طور پر قونصلر رسائی کی بات نہیں کی۔ بھارت نے پہلے کلبھوشن کو اپنا شہری ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ کلبھوشن کو شہری ماننے میں بھارت کو ایک سال لگا۔ عالمی عدالت میں اپنے کیس کا بھرپور دفاع کریں گے۔ عالمی عدالت نے ابھی حتمی فیصلہ نہیں دیا۔ بھارتی اٹارنی جنرل مکل روہتگی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ عالمی عدالت انصاف نے بھارت کو کلبھوشن یادیو تک قونصلر رسائی نہیں دی ہے۔ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے مزید کہا ہے کہ آئی سی جے کے فیصلے سے پاکستان کا مؤقف تبدیل نہیں ہوا۔ عالمی عدالت کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے اٹارنی جنرل کے آفس سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ بھارت زیادہ دیر تک اپنے گھنائونے جرائم کو چھپا نہیں سکتا۔ عالمی عدالت کے فیصلے سے کلبھوشن کیس کے سٹیٹس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے پاس کلبھوشن کیس کے متعلق کوئی جواز نہیں ہے۔ کلبھوشن یادیو کے پاس رحم کی اپیل کیلئے وقت ہے۔ پاکستان تمام متنازعہ معاملات پرامن طریقے سے حل کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان عالمی عدالت انصاف کے احترام میں کارروائی کا حصہ بنا۔
پاکستان حتمی فیصلے تک کلبھوشن کوپھانسی نہ دے :عالمی عدالت
May 19, 2017