’ہم الیکشن میں ایک دن، ایک منٹ بلکہ ایک گھڑی کی تاخیر برداشت نہیں کریں گے‘، یہ بات چند دن پیشتر میاں نواز شریف نے ، احتساب عدالت کے باہر صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں،بڑے سخت لہجے میں کہییاد رہے ان کا یہ فطری رد ِ عمل عمران خان کے اس بیان کے خلاف تھا، جس میں عمران خان نے کہا تھا کہ ’ انتخابات میں ایک ماہ کی تاخیر ہو سکتی ہے‘،جبکہ چیف جسٹس اس سے پہلے التوا کے کسی بھی امکان کو رد کر چکے ہیںیاد ہو گااُن کے اس بیان کو میاں صاحب نے سراہا بھی تھاعمران کا یہ بیان اس وقت آیا جب موجودہ حکومت اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہی ہے،گنتی کے چند دن باقی ہیں، ملک کی تقریبا تمام بڑی اور اہم سیاسی جماعتیں ’وارم اپ ‘ کے طور پر جلسہ جلسہ کھیل رہی ہیںآئے روز بہت سی جماعتیں ایک ساتھ عوامی رابطہ مہم کے سلسلے میں اپنے پنڈال سجا رہی ہیں انتخابات کے دن قریب آتے ہی،عوام میں جوش و ولولہ بھی بڑھتا جا رہا ہے جس شہر میں جاو¿،جہاں سے گزرو ،جگہ جگہ اُمیدواروں کے تعارفی بینردکھائی دیتے ہیںحالاں کہ ابھی تک کسی پارٹی نے کسی اُمیدوار کا نام فائنل نہیں کیاہاں ٹکٹوں کی تقسیم کےلئے پارلیمانی بورڈضرور بننے لگے ہیں، ساتھ ہی انتخابات کے التوا کی افواہیں گردش کرنے لگی ہیںاُدھر میاں صاحب نے ’ خلائی مخلوق‘ سے مقابلے کا جو عندیہ دیا تھااس سے بھی، ان افواہوں کو تقویت ملتی ہے،اب ظاہر ہے، ’خلائی مخلوق ‘میاں صاحب کو دوبارہ اقتدار میں لانے کے لئے تو الیکشن نہیں کروائے گیالیکشن تبھی ہوں گے جب انہوں یقین ہو گا کہ اب حالات ’ساز گار‘ ہیں تو کیا موجودہ حالات انتخابات کےلئے ساز گار نہیں؟اس کاتجزیہ ہر کوئی اپنی سمجھ اور فہم و فراست کے مطابق کر رہا ہے بعض کا خیال ہے کہ میاں صاحب کے،’ مجھے کیوں نکالا‘ سے لے کر ’ووٹ کو عزت دو‘تک کے بیانیہ نے بہت حد تک ان کی مقبولیت میں اضافہ کیا ہےوہ یہ تاثر قائم کرنے میں کامیاب رہے ہیں کہ ’انہیںنکالنے کے پیچھے اسٹبلشمنٹ کا ہاتھ ہے،جس نے عوامی مینڈیٹ کی توہین کی ہےسیاسی تجزیہ نگاربخوبی جانتے ہیں کہ ’ حکومتیں بنانے اور گرانے میں، اسٹبلشمنٹ خاصی ’بدنام ‘ہےبعض کوتو اس کے پیچھے انٹر نیشنل اسٹبلشمنٹ کا ’ رول‘ بھی واضح دکھائی دیتا ہےملک کی تاریخ کے پہلے مارشل لاءکوبھی اسی انٹرنیشنل اسٹبلشمنٹ کی آشیر باد حاصل تھییہ شروع دن سے ہی طے کیا جا چکا تھا کہ اس خطے میں امریکا کے مفادات کے تحفظ کے لئے پاکستان میں انہیں ملٹری حکومت ہی ’وارا‘ کھائے گی آئی جے آئی اور ایم ایم اے کی تخلیق کا مقصد بھی سب سمجھتے ہیںاب آئی جے آئی کا تو دور دور تک نام نشان نہیں البتہ ایم ایم اے کے دوبارہ متحرک ہونے پر کئی سوال اُٹھائے جا رہے ہیںدوسری طرف’ فصلی بٹیروں کی اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر اُڑانیں بھی موسم کی تبدیلی کی غماز ہیں بالخصوص ایم کیو ایم کی چھتری توقریب قریب ’ ویہلی‘ ہوا چاہتی ہے نون لیگ کی’ بوری‘ میں بھی شگاف ہو رہے ہیں اور دانے گرتے جا رہے ہیںجسے میاں صاحب کے حالیہ بیان نے اور زیادہ کھلا کر دیا ہےنواز شریف نے پارٹی چھوڑنے والوں اور پی ٹی آئی میں شامل ہونے والوںکاکریڈٹ بھی خلائی مخلوق کو دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ان لوگوں سے پارٹی چھڑوائی جا رہی ہے، ان کا اشارہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ والوں کی جانب تھا،ایک پارٹی سے الیکٹیبل کو نکال کر دوسری پارٹی میں شامل کرنا یا کروانا ،ایک طرف میاں صاحب کے موقف کو تقویت دیتا ہے تو دوسری طرف یہ اشارہ کسی ایک پارٹی کے حق میں جاتا ہےجس سے اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ انتخابات کیا صورت اختیار کرنے جا رہے ہیں بہت سے تجزیہ نگار اس بات پر بھی معترض ہیں کہ نیب کی کارروائیاں جو ابھی اپنے انجام تک نہیں پہنچیں، اگر فوری الیکشن ہوتے ہیں تو وہ ’ کھوہ کھاتے‘ میں چلی جائیں گی، اگر ان کارروائیوں کو نتیجہ خیز نہیں بنانا تھا تو احتساب کے نام پر اتنا ہیجان کیوں برپا کیا گیا؟2013کے الیکشن میں جن خامیوں یاکوتاہیوں کی نشاندہی ہوئی ان پر ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی حالیہ انتخابی اصلاحات بل نے معاملات کو اور الجھا دیا ہے اسی سسٹم کے تحت ہونے والے نئے انتخابات کس قدر اور کیوں کر قابل ِ قبول ہوں گے ؟ان کی طرف سے یہ مطالبہ بھی (جسے ایک حد تک عوام الناس کی حمایت بھی حاصل ہے)کہ پہلے احتساب کا عمل مکمل کیاجائے اور 2014کے ’ جوڈیشل کمشن‘ کی سفارشات کے مطابق ،انتخابی اصلاحات کو یقینی بنایا جائے پھر انتخابات کروائے جائیںتونتیجہ خیر ہونے کا امکان ہو سکتا ہے ۔
پنجابی میں کہاوت ہے کہ ’ من حرامی، حجتاں ڈھیر‘کسی کام کے کرنے کی نیت نہ ہو تو بہانے بہت بنائے جا سکتے ہیں بات وہی ہے کہ حالات ’سازگار‘ ہوں گے تو انتخاب کروائے جا ئیں گے ورنہ التوا کے لاکھ بہانے تراشے جا سکتے ہیںاُدھرمیاں صاحب نے ممبئی سانحہ پر بیان دے کر اچانک سیاسی ماحول میں تلاطم برپا کر دیااس بیان سے سیاسی ماحول میں ایسا ہیجان پیدا ہوا کہ مسلم لیگ نون کا سنجیدہ ورکر بھی ششدرہے کہ ’ ووٹ کو عزت دو‘ کے بیانیہ سے یکدم’ سیکورٹی ایشوز‘ پرآنا کہیں’پانامالیکس‘ کے کسی متوقع سخت فیصلے کا نتیجہ تو نہیں؟جس سے اپوزیشن کو اپنے جلسوں میں حکومت پر برسنے کا موقع ہاتھ آ گیاہے جبکہ حکومتی جماعت اپنے جلسوں میںاس بیان پر وضاحتیںدینے میں لگی ہےحتیٰ کہ گذشتہ روز جاتی امراءمیں پارٹی رہنماو¿ں کے اجلاس میںبھی ،اس ایشو کو لے کرخاصی گرما گرمی سننے میں آئی،پارٹی قائد اور صدر کے الگ الگ بیانیہ پر بھی رہنماو¿ں نے حیرت کا اظہار کیا دوسری طرف میاں صاحب کے اسٹبلشمنٹ کے خلاف دلیرانہ موقف کو سراہا بھی گیا تاہم اس بیان کی ٹائمنگ پر سب حیران ہیں کہ میاں صاحب کو یہ سٹینڈ اس وقت نہیں لینا چاہیے تھا،جب انتخابات سر پر ہیں ایسے میں پارٹی قائد کا بیان نقصان دہ بھی ہو سکتا ہےلیکن بعض رہنماو¿ں کا موقف اس کے بالکل اُلٹ ہے کہ خلائی مخلوق کو انتخابات پر اثر انداز ہونے سے روکنے کےلئے یہ بیان درست ہےاس سے وہ دفاعی پوزیشن پر چلی گئی ہے بائیں بازو کی اکثر جماعتیں پہلے ہی اس بیانیہ پر زور دیتی آئی ہیںپی پی پی خلائی مخلوق کی پہلے ہی زخم خوردہ ہےجبھی تو میمو گیٹ سامنے آیاتھااچکزئی تو کھلم کھلا اس بیانیہ کا اظہار کرتے رہے ہیں اس بیان پر جہاں بعض رہنماو¿ں کی طرف سے سخت موقف ، اور آرٹیکل 6کے تحت کارروائی کا مطالبہ سامنے آیا وہاں پی پی پی قیادت نے کئی روز تک زبان نہیں کھولی، وہ شائد اس گومگو میں رہی کہ جس بیانیہ پر اس کے خلاف میمو گیٹ بنا اس پر مخالفانہ رد عمل کیونکر دیں؟ لگتا ہے زرداری صاحب کو’ اینٹ سے اینٹ بجانے‘کے بیانیہ پر حزیمت اُٹھانے کے بعد خلائی مخلوق کی خوشامند میں ہی عافیت دکھائی دیجس پر اسٹبلشمنٹ کا ان کے لئے نرم گوشہ بھی محسوس کیا جا رہا ہے وزیر اعظم کا کل کا بیان بھی قابل ِ غور ہے کہ’31 مئی کی رات 12بجے تک کام کریں گے،اس کے بعد 60دن میں انتخابات ہونے چاہیں‘،تو کیا انہیں بھی کہیں التوا کی بو تو نہیں آ رہی؟