یہ وہ سحر تو نہیں …

May 19, 2019

وقار مسعود خاں

گذشتہ دنوں بعد از خرابی بسیار حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان سٹاف لیول کا معاہدہ طے پاگیا۔ انتالیس مہینوں پر محیط اس پروگرام کے ذریعے پاکستان کو چھ ارب ڈالر کا قرضہ آئی ایم ایف سے ملے گا جبکہ اسکی بدولت ورلڈ بینک اور ایشین ڈیولپمنٹ بینک بھی پانچ سے چھ ارب ڈالر کے مزید قرضے فراہم کرینگے۔وسائل کی مقدار کے حوالے سے یہ کوئی بہت بڑا پروگرام نہیں ہے، لیکن اسکی اہمیت مسلّم ہے کیونکہ اس کے بغیر معیشت جس عدم استحکام کا شکار تھی وہ بدستور قائم رہتی اور کسی بڑی خرابی کا باعث بن سکتی تھی۔ حیرت انگیز طور پر پرگرام کا اعلان اس انداز میں کیا گیا کہ اسکے انعقاد سے مطلوبہ جوش و خروش حاصل نہ ہوسکا۔ عموماً اس موقع پر ایک پریس کانفرنس کا اہتمام کیا جاتا ہے جہاں وزیر خزانہ (مشیر) اور مشن چیف پروگرام کی اہم تفصیلات کا اعلان کرتے ہیں اور اخباری نمائندوں کے سوالات کے جواب بھی دیتے ہیں۔ اسکے برعکس، مشیر خزانہ نے سرکاری ٹی وی پر ایک مختصر انٹرویو میں اس معاہدے کا اعلان کیا اور اسکی چند باتوں کی نشاندہی کی۔ دوسری جانب آئی ایم ایف نے واشنگٹن سے ایک پریس ریلیز جاری کردیا جس میں پروگرام کی عمومی تفصیلات بیان کیگئی تھیں۔ یہ ناقابل فہم طریقہ کار اتوار کو رات گئے عوام کے سامنے آیا۔ قبل ازیں مذاکرات میں اس وقت تعطل کی خبریں آئیں جب جمعہ کے روز شیڈول کے مطابق مشن کا دورہ ختم ہونے کے باوجود متوقع اعلان نہیں ہوا۔ مشن چیف نے دو دن مزید قیام بڑھا دیا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پروگرام کی کئی شرائط ایسی تھیں جو وزیر اعظم کو قابل قبول نہیں تھیں لہذا یہ کوشش کی گئی کہ واشنگٹن سے ان پر نرمی حاصل کیجائی، لیکن اس میں کامیابی نہیں ہوئی لہذا ایک پژمردہ حالت ایک خاموش اعلامیے کا باعث بنی۔
ہفتے کے آغاز پر مارکیٹ نے اس معاہدے کا استقبال سرد مہری سے کیا۔ ابتداً کچھ تیزی دیکھنے میں آئی لیکن جلد ہی مارکیٹ کو یہ احساس ہوگیا کہ معاہدے کی تفصیلات موجود نہیں ہیں لہذا بے یقینی نے پھر گھیرا ڈال دیا۔ بعد ازاں مارکیٹ زبردست مندی کا شکار ہوگئی اور اس نے آٹھ سو سے زیادہ پوائنٹس کھودیے۔ انٹر بینک میں شرح تبادلہ مستحکم رہی لیکن اوپن مارکیٹ میں اس نے ایک روپیہ کھو دیا۔ دوسرے دن مارکیٹ میں مندی قائم رہی لیکن اس نے صرف پینتس پوائنٹس کھوئے۔ دوسری جانب اوپن مارکیٹ میں شرح تبادلہ دو روپے مزیدگر گئی باوجودیکہ انٹر بینک میں سابقہ شرح قائم رہی۔ تیسرے روز اسٹاک مارکیٹ میں کوئی چار سو پوائنٹس کا اضافہ ہوا، انٹر بینک استحکام کے باوجود اوپن مارکیٹ میں شرح تبادلہ نہ صرف گراوٹ کا شکار رہی بلکہ اس میں بے چینی کے آثار واضح تھے۔ ڈالر کی عدم موجودگی کی شکائیتں بھی سامنے آنے لگیں۔ مارکیٹ کے اضطراب کو دور کرنے کیلئے ایک غیر معمولی قدم کے طور پر وزیر اعظم نے ایکسچینج کمپنیوں اور منی چنجرز کی ایسوسی ایشن کا اجلاس طلب کرلیا۔ مشیر خزانہ اور گورنر اسٹیت بینک بھی اس اجلاس میںشریک تھے۔ ماضی میں اسطرح کے کسی قدم کی مثال نہیں ملتی۔ اس قسم کے اجلاس وزیر خزانہ طلب کرتے رہیں ہیں تاکہ مارکیٹ میں سٹے بازی اور ڈالر کی ذخیرہ اندوزی کو روکا جائے۔ اس اجلاس کے بعد یہ بتایا گیا کہ ایسوسی ایشن نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ ڈالر کی خرید و فروخت کو Rs.143-144.5 کے درمیان رکھیں گے۔
چوتھے روز کی سب سے بڑی اور حیرت ناک خبر یہ تھی کہ انٹر بینک میں ڈالر 141.7 روپے سے بڑھ کر147 روپے تک جا پہنچا۔ تجزیہ نگار یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ وزیر اعظم توRs.143-144.5 کی درمیانی شرح کا مطالبہ کررہے ہیں اور دوسرے دن اسٹیٹ بینک شرح تبادلہ میں اتنی بڑی تبدیلی کررہا ہے۔ ان دونوں باتوں کے درمیان ایک خلا ہے جس کی نشاندہی و شناخت ہونا ضروری ہے۔ کیاوزیر اعظم بے خبر تھے یا پھر وہ تجاہل عارفانہ کامظاہرہ کررہے تھے؟ اس موقع پر بینک نے جو اعلامیہ جاری کیا ہے وہ بالکل وہ ہی ہے جو ماضی میں اس موقع پر جاری ہوتا رہا ہے۔ یعنی شرح تبادلہ میں ردوبدل مارکیٹ کے تقاضوں کی عکاسی کررہا ہے۔ ابھی ایک ماہ پہلے سابق وزیر خزانہ اسد عمر صاحب نے بڑے اعتماد کیساتھ یہ خبر دی تھی کہ شرح تبادلہ متوازن سطح پر ہے اس میں فی الحال کسی مزید ردو بدل کی ضرورت نہیں ہے۔لہذا سرمایہ کار اور عام آدمی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ کس کی بات کا اعتبار کیا جائے۔
اس پس منظر میں اسٹاک مارکیٹ مزید گرکر تین سال کی کم ترین سطح پر آگئی ہے۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد شدید متاثر ہوا ہے۔ جمعہ کے روز بھی یہ عمل جاری رہا اور شرح تبادلہ کا کل نقصان آٹھ روپے ہوگیا اور اسٹاک مارکیٹ کی مندی جاری رہی۔ در حقیقت شرح تبادلہ میں تبدیلی ان سابقہ اقدامات (Prior Actions) کی کڑی ہے جو پاکستان نے کرنے ہیں قبل اس کے کہ آئی ایم ایف کا بورڈ اس پروگرام کی منظوری دے۔ ان میں ابھی بہت سارے اور اقدامات بھی شامل ہیں۔ سب بڑا مرحلہ اس وقت سامنے آئیگا جب بجٹ کا اعلان ہوگا۔ ایک اندازے کیمطابق اس موقع پر سات سو سے آٹھ سو ارب روپے کے ٹیکس عائد کیے جائینگے اور بہت سارے اخراجات کو کاٹا جائیگا تاکہ بجٹ کا خسارہ محدود کیا جاسکے۔ علاوہ ازیں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا جائیگا۔ ایک اور اہم قدم شرح مارک اپ میں اضافہ ہے جس کا متوقع اعلان آئندہ ہفتے مانیٹری پالیسی کمیٹی کے اجلاس میں کیا جائیگا۔ یہ اقدامات ابھی بہت دور ہیں لیکن پروگرام کے آغاز میں ترتیب کچھ اسطرح رکھ دی گئی کہ مارکیٹ اس کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکی۔ معلومات کا فقدان اور غیر مربوط اقدامات ذہنی الجھاؤ اور پریشانی کا باعث بن گئے۔
قارئین جانتے ہیں کہ ان صفحات میں ہم تسلسل سے اس بات کی سفارش کرتے آئے ہیں کہ پاکستان کو جلد از جلد آئی ایم ایف کے پروگرام کا آغاز کرنا چاہیے کیونکہ اسکے علاوہ ملک کی بگڑتی معاشی صورتحال پر قابو پانے کا کوئی اور راستہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ لہذا ہمیں اس بات پر خوشی اور اطمینان ہے کہ بالآخر یہ مرحلہ مکمل ہو گیا ہے۔ مشیر خزانہ نے کراچی کا دورہ کیا ہے اور مختلف کاروباری طبقات سے ملاقاتیں کی ہیں۔ یہ ایک مثبت عمل ہے لیکن اس کو وسیع تر کرنا پڑیگا۔ حکومت اس بات کا اہتمام کرے کہ پروگرام سے متعلق جو بھی اہم نکات طے ہوئے ہیں ان سے متعلق ضروری معلومات عوام تک پہنچائیں۔ جن سرمایہ کاروں نے مشیر خزانہ سے ملاقات کی ہے ان کا کہنا تھا کہ اس ملاقات سے نہ ان کی تشفی ہوئی ہے اور نہ وہ بے یقینی ختم ہوئی جس کا وہ سامنا کررہے ہیں۔ لہذا یہ بہت ضروری ہے کہ بات چیت کا سلسلہ مستقل جاری رکھا جائے اور انکے اعتماد کی بحالی کیلئے مزید اقدامات کیے جائیں۔ آئی ایم ایف پروگرام کا حصول اس کی کامیابی کی ضمانت نہیں ہے۔ اس کیلئے محنت شاقہ اور مستقل مزاجی کی ضرورت ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ ہمیں پہلی منزل چڑھنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ یہ مشکل جلد دور کرنا ہوگی۔ اگر حکومت عوام، کاروباری حلقوں اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو حاصل نہ کرسکی تو اگلی منزلوں کا سفر مزید پریشانیوں کا حامل ہوگا۔ پاکستان پروگرام کی ناکامی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ایسی صورت میں ہمیں ایک پر خطر مستقبل کا سامنا ہوگا۔ دنیا میں کئی ایسی مثالیں اہیں جہاں پروگرام نے متوقع نتائج نہیں دیے اور معاشی عدم استحکام کا سلسلہ مزید ابتری کا شکار ہوگیا۔ عوام کی تکالیف میں اضافہ ہوتا رہا اور معاشی عدم استحکام سیاسی اور معاشرتی بے چینی اور اضطراب میں بدل گیا جو بالآخر ان ممالک میں ایک بڑی خرابی کا سبب بنا۔ ہماری قیادت کو ایسے امکانات کا تدارک کرنا ہوگا اور معیشت کی طوفان میں گھری کشتی کو کنارے لانا ہوگا۔ یہ کام عوام اور کاروباری حلقوں کا اعتماد بحال کیے بغیر ممکن نہیں ہے، جس کی کوششوں میں کئی گنا اضافہ ہونا چاہیے۔

مزیدخبریں