خلیج کے خطے میں صدرٹرمپ کی عسکری تیاریوں کا مقصد گہرے سمندروں میںبحری جنگ کی طاقت کی برتری ثابت کرنا نہیں بلکہ ’’وحشت اوردہشت ‘‘ کے حربوں سے ایران کوزیر کرنا ہے جو کئی دہائیوں سے معاشرتی استحصال اورمالی دہشت گردی کا شکار ہے-یہ بھی جنگ کا ایک ہتھیار ہے جس کاکئی دہائیوں سے ایران کو سامنا ہے- امریکہ کا خیال ہے کہ اسرائیل کے لئے ایران پر حملہ کرنے کا یہ مناسب ترین وقت ہے تاکہ فروری2019ء میں منعقد ہونے والے وارسا پلان کے اہداف حاصل کئے جا سکیں-اس پلان میں اسرائیل کویہ ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مدد سے ایران سے نمٹ سکے-امریکہ خودبراہ راست اس جنگ میں شامل نہیں ہوگا-ان کا خیال ہے کہ سیاسی اور اقتصادی طور پر ایران اس قدرکمزور ہو چکا ہے کہ اسرائیلی فوج بآسانی حکومت کی تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر کرسکتی ہے لیکن ان کی سوچ سے عیاں ہوتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل دونوں نے ماضی میں‘ خطے میں لڑی جانے والی غیر معمولی جنگوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے‘جیسا کہ پہلی مثال 1980ء سے ظاہرہے جب امریکہ نے عراق کو تھپکی دے کر انقلاب کو کچلنے کے لئے ایران کے خلاف صف آراء کیا تھا- دو دن بعدجنرل ضیاء الحق نے کابینہ کی ہنگامی میٹنگ بلائی - میں نے بحیثیت چیف آف جنرل سٹاف‘ جی ایچ کیو کی نمائندگی کی-تمام شرکاء کی رائے تھی کہ چند ہی ہفتوں میں عراق کی فوج ایران کے بیشتر علاقوں پر قابض ہوجائے گی اورایران جنگ ہار جائے گا- میں نے مداخلت کرتے ہوئے کہا:؎
’’یہ جنگ چند دنوں ‘ ہفتوں یا مہینوں میںختم نہیں ہوگی بلکہ کئی سالوں تک چلے گی اور ایران فتح یاب ہوگاجس سے انقلاب مضبوط ہوگا- چین کے ایک دانشور کا قول ہے کہ’’ کسی بھی انقلابی سے مت ٹکراؤ‘ جب تک تمہیں یقین نہ ہو کہ تمہارے نظریات انقلابیوں کے نظریات سے بہتر اور اعلی ہیں-‘‘ بلاشبہ اسلامی
نظریے سے مضبوط اور کوئی نظریہ نہیں ہے- ایرانیوں کی تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی ان پربیرونی حملہ ہواہے وہ باہمی اختلافات بھلا کر حملہ آور کے خلاف سینہ سپر ہوئے ہیں-آج رضا شاہ کی فوج بیرکوں میں قیدہے لیکن جلد ہی وہ ایران یانقلابی گارڈ کے ساتھ مل کرملک کا دفاع کریں گی اور اندرون ملک انقلاب مستحکم بنائیں گی -‘‘’’بلاشبہ عراق کی فوج جدید عسکری سازوسامان سے لیس ہے لیکن اس کی اعلی قیادت پیشہ ورانہ طور پر کمزورہے-وہ جرمن جنرل سٹاف کی طرح نہیں ہے جس نے دوسری جنگ عظیم میں فرانس کی دفاعی لائن عبور کر کے دشمن کے دوردرازعلاقے فتح کئے تھے-ایران اور عراق کے سرحدی علاقے ‘جنوب میں دلدلی اور شمال کے پہاڑی علاقے فوجی کاروائی کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوں گے-لہذا کسی غیرمعمولی کامیابی یا نقصان کا کوئی امکان نہیں ہے-سرحدی پیمانے پر جنگ ہو گی جس میں بھاری جانی نقصان ہوگااور بالآخر ایران کو فتح ہوگی- لہذامیرا مشورہ ہے کہ دونوں امکانات کو ذہن میں رکھ کے پالیسی بنائی جائے-‘‘
میرا تجزیہ سچ ثابت ہوا اورآٹھ سالہ ظالمانہ جنگ کے بعد جب ایرانی فوجیں شط العرب عبور کر کے فاء (Faw)کے علاقے میں جمع ہوئیں اور بصرہ کی سمت پیش قدمی شروع کی تو صدام نے کیمیکل ہتھیاروں سے حملہ کیا جو مہذب دنیا نے اسے دیے تھے ‘ جس سے بھاری تعداد میں لوگ ہلاک ہو گئے- ایران کے پاس کیمیکل ہتھیاروں کے خلاف دفاعی صلاحیت نہ تھی لہذا سیز فائر ہوا اور جنگ ختم ہوگئی-آج موجودہ صورت حال بھی زیادہ تر ویسی ہی ہے لیکن فوجی لحاظ سے ایران1980ء کی نسبت دس گنا زیادہ طاقتور ہے-
دوسری مثال: 2006ء میںجب اسرائیل ایران اور حزب اللہ کو جنگ کی دھمکیاں دے رہا تھا تو ایک ایرانی فوجی وفد مجھ سے ملنے آیا- میں نے انہیں مشورہ دیاکہ اسرائیل کا مقابلہ کرنے کیلئے فری فلائٹ راکٹوں اور میزائلوںکا استعمال کریں تاکہ اسرائیل کا آئرن ڈوم ائر ڈیفنس سسٹم ناکارہ بنایا جا سکے - ایرانی وفد ابھی وہیں تھا کہ فرانس کی خبر رساں ایجنسی Reuters کے چند صحافی آگئے- دوسری باتوں کے علاوہ انہوں نے پوچھا کہ ایرانیوں سے کیا بات ہوئی؟
میں نے بتا دیا کہ ’’اگر اسرائیل جنگ کرتا ہے تو اس کا جواب ایران راکٹوں اور میزائلوں سے دے گااور اسرائیل ہی نشانہ بنے گا-‘‘اسرائیل نے حزب اللہ کوکمزور سمجھتے ہوئے پہلا ہدف چنا لیکن حزب اللہ نے فری فلائٹ راکٹوں سے بھرپورجواب دیا‘ ایک ایسا خطرہ جس کا آئرن ڈوم بھی موثرتوڑ نہ کر سکا-اسرائیلی حکومت نے بوکھلاہٹ میں حزب اللہ کے میزائیلوں کے ٹھکانوں کے خلاف زمینی فوج استعمال کرنے کا فیصلہ کیالیکن ناکامی ان کا مقدر بنی کیونکہ وہ دو بدو لڑائی میں حزب اللہ کے جنگجوؤں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے-
موجودہ صورت حال میںاسرائیل کے لئے زمینی حالات نامناسب ہیں-اور اگر اسرائیل ایران پر حملہ کرتا ہے تو ایک اندازے کے مطابق دو لاکھ سے زیادہ میزائل اور فری فلائٹ راکٹ تینوں اطراف سے اسرائیل پر بارش کی صورت میں برسیں گے اور آئرن ڈوم آئر ڈیفنس سسٹم کو چند ہی دنوں میں ناکارہ بنا دیں گے-حالیہ عرصے میں حماس نے اسرائیل پر صرف 400 راکٹ فائر کئے جن میں سے اسرائیلی ائر ڈیفنس سسٹم صرف ساٹھ فیصد کو ناکارہ بنا سکا -یہ وہ حقیقت ہے جو’’متحارب سوچ‘‘ کی فوجوں کے درمیان فیصلہ کن ثابت ہوگی-
تیسری مثال:2001ء میں جب پاکستان نے افغانستان کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کا شرمناک فیصلہ کیا تو میںنے بھری محفل میں جنرل مشرف کو انتباہ کرتے ہوئے کہا تھا : ’’آپ نے فیصلہ کر لیا ہے تو اس کی توجیہہ پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے-اہم بات ایک ایسی جنگ میں شامل ہونا ہے جس کی نہ تو کوئی منطق ہے نہ جواز کیونکہ افغانون نے کبھی بھی پاکستان کو نقصان نہیں پہنچایا اور نہ ہی ہمارا امریکہ کے ساتھ جنگ میں شامل ہونے کا کوئی جنگی معاہدہ ہے-اب ہمیں محتاط طریقے سے آگے بڑھنا ہے تاکہ ریڈ لائن (Red-Line) سے آگے جا کر ہم اپنے قومی مفادات کو نقصان نہ پہنچالیں-‘‘
’’بے شک چند ہفتوں کے اندر جارح فوجیں افغانستان پر قابض ہو جائیں گی اور طالبان جلال آباداور قندھار کی طرف پسپائی اختیار کر لیں گے جہاں سے انہوں نے1996ء میں شروعات کی تھیں-اس طرح وہ پاکستان میںاپنے بیس کیمپ سے منسلک ہو کرپاکستان اور دیگر ممالک سے آنے والے نوجوان طالبان کی مدد سے پرانے طالبان کے ساتھ اتحاد قائم کر کے از سر نو منظم ہوں گے اور قابض فوجوں کے خلاف ایک ناقابل شکست مزاحمتی قوت کی شکل اختیار کر لیں گے-جوں جوں مزاحمت بڑھے گی‘ تصادم کا علاقہ سرحدی علاقوں تک پھیلتاجائے گا جس سے جنگ کا رخ پاکستان کی جانب مڑ جائے گا-اس طرح پاکستان کو دو محاذوں پر جنگ کا سامناکرناہوگا جو ایک مشکل صورت حال ہوگی-بے شک چند ہفتوں میں اتحادی فوجیں افغانستان پر قبضہ کر لیںگی لیکن آخری فتح طالبان کی ہی ہوگی اورامریکہ اور اس کے اتحادی شکست کھا جائیں گے-‘‘اور ایسا ہی ہوا-
افغانستان میں کھربوں ڈالر اورچوبیس سوفوجیوں کی جانیں ضائع کرنے کے باوجود امریکہ اور اس کے اتحادی ’’تصادم کی منطق‘‘ سمجھنے سے عاری نظر آتے ہیں جس کی طاقت کا منبع کسی قوم کا نظریہ حیات ہوتا ہے‘ چاہے ایرانیوں کا اسلامی انقلاب کا نظریہ ہو یاافغان طالبان کا نظریہ جہاد‘ دونوں کا محور و مرکز ایک ہی ہے یعنی اللہ تعالی کی وحدانیت‘ جو قوموں کو منزل کی جانب رہنمائی کرتا ہے-یہی وہ معجزہ ہے کہ آج امریکہ جو کہ دنیا کی اکلوتی سپر پاور ہے ‘ وہ افغانستان سے باعزت نکلنے کے لئے طالبان سے فائر بندی کی بھیک مانگ رہا ہے-امید ہے اسرائیل ان حقائق کو دیکھ بھی رہا ہوگا اور سمجھ بھی رہا ہوگا-
ایران خطے میں کسی بھی امریکی عسکری ٹھکانے کو نشانہ بناکے پرل ہاربر(Pearl Harbour) جیسی صورت حال کو دعوت نہیں دے گاجبکہ ایران کے دشمن امریکہ کو تصادم میں شامل کرنا چاہتے ہیں-اس سلسلے میں چار تیل بردار جہاز جو امریکی بندرگاہوں کی جانب جا رہے تھے خلیج سے 140 کلومیٹر دور متحدہ امارات کے ساحلوں کے قریب انہیں ’’احتیاط سے نشانہ‘‘ بنایا گیا -یمن کے حوثیوں نے ڈرون حملہ کر کے سعودی قصبوں میں تیل کے دو پمپنگ اسٹیشنز(Oil Pumping Stations) کو نقصان پہنچایا ہے -شاید یہ حربے جنگ شروع کرنے میں کارگر ثابت ہو جائیں- اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل امریکی ایف35طیاروں کے ذریعے ایران میں دور تک اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے مگر ایرانیوں کے پاس اسرائیل سے نمٹنے کے لئے ایک بڑی ناقابل شکست صلاحیت بھی موجودہے جس سے اسرائیل کی سلامتی داؤ پر لگ جائے گی -اگر جنگ شروع ہوجاتی ہے تو اس کے انداز بالکل نرالے ہوں گے کیونکہ میزائل‘ راکٹ‘ ڈرون اور خودکش حملہ آور کی تعداد ہی فیصلہ کن ثابت ہوگی-لہذا اسرائیل کے اپنے مفاد میں ہے کہ وہ ٹرمپ کے راستے پر نہ چلے اور دو قومی نظریے پر عمل پیرا ہوکر خطے میں دیرپاقیام امن کی کوششیں کرے-