نوے کی دہائی میں پاکستان میںمتعین ایک چینی سفیر نے مجھ سمیت چنداخبار نویسوں کو اسلام آباد میں چینی سفارت خانہ میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ پچاس کی دہائی میں پاکستان اور چین کی برآمدات میں زیادہ فرق نہیں تھا۔ چین 1950ء میں غیر ملکی تسلط اور ملکی استحصالی نظام کی زنجیر توڑ کر ایک آزاد مملکت بنا تھا۔ پچاس کی دہائی میں چین ایک پسماندہ اور غریب ملک تھا۔ کمیونسٹ انقلاب کے ابتدائی دور میں جدید چین کے بانی چیئرمین ماؤزے تنگ نے پچاس اور ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ایسے سیاسی اور معاشی تجربات کئے جو بڑے متنازعہ بن گئے۔ مثلاً ’’آگے کی طرف عظیم جست ‘‘کے نام پر ساٹھ کی دہائی میں ماؤزے تنگ نے چین کو فولاد کی صنعت میں تیزی سے ترقی یافتہ بنانے کا تجربہ کیا۔ حکومت کی ساری توجہ فولاد سازی پر مرکوز رہی۔ ’’آگے کی طرف عظیم جست ‘‘کا تجربہ ختم ہوا تو ماؤزے نے ثقافتی انقلاب برپا کر دیا۔ اس ثقافتی انقلاب کا مقصد محنت کی عظمت اور وقار کو اجاگر کرنا تھا۔ ثقافتی انقلاب کی داخلی طور پر بہت مزاحمت ہوئی اور چین ایک کشمکش کا شکار ہوگیا۔ مغربی ملکوں کے تجزیہ کاروں اور تاریخ دانوں نے چین کے ثقافتی انقلاب کو افراتفری "CHAOS" کا دور قرار دیا ہے۔ مغربی نقادوں کے مطابق اس دور میں کم وبیش بیس لاکھ چینی باشندے مارے گئے۔
ان تمام معاشی اور سیاسی مشکلات سے گزرنے کے بعد چین ماؤزے تنگ کی موت کے بعد نئے دور میں داخل ہوا۔ دینگ پاؤ ینگ جو ماؤزے تنگ کے دور میں عتاب کا شکار رہا ابھر کر اسی کی دہائی میں چین کا سربراہ بنا اور اس نے معیشت میں اوپن ڈور پالیسی اپنائی۔ جو چین کی موجودہ حیرت انگیزترقی کا سبب بنی۔ گزشتہ تیس برس میں چین معاشی اعتبار سے ایک سپرطاقت بن گیا۔ چین کے علاوہ جنوبی کوریا کی بھی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ہمارے پرانے دور کے معیشت دان جانتے ہیں کہ ساٹھ کی دہائی میں جنوبی کوریا کو عالمی بنک اور دوسرے اداروں نے یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ پاکستان کے ترقیاتی ماڈل کو اپنائے تو جلد ترقی کرسکتا ہے۔ جنوبی کوریا کے معیشت دانوں کی ٹیم نے پاکستان کا دورہ کرکے یہاں اس وقت کے پلاننگ کمشن سے ہمارے ’’اکنامک ماڈل‘‘ کا مطالعہ کیا۔ اور اس ماڈل کو اپنے حالات کے مطابق اپنا کر جنوبی کوریا کو ایک طاقت ور معیشت بنا دیا ۔ جنوبی کوریا کو امریکہ اور عالمی مالیاتی اداروں نے معاشی ترقی میں بڑی مدد فراہم کی لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ کوریا کے عوام نے محنت اور دیانت داری سے کام کرکے جنوبی کوریا کو ایک معاشی قوت بنا دیا۔
ویت نام کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں کہ وہ کم وبیش بیس سال تک جنگ کی لپیٹ میں رہا۔ امریکہ اور کمیونسٹ طاقتوں کی چپقلش کے باعث ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ویت نام امریکی بمباری اور جدید ہتھیاروں کے استعمال سے برباد ہو کر رہ گیا تھا۔ ویت نام پر امریکہ نے اس وقت کے مہلک ترین ہتھیار استعمال کئے جن میں نیپام بم شامل تھا۔ ویت نام کی سرزمین امریکہ کے بی 52 قسم کے طیاروں نے بمباری کرکے اسے برباد کر دیا تھا۔ وہ تباہ شدہ ویت نام گزشتہ 30 برس میں جنوبی مشرقی ایشیاء کی معاشی قوت بن کر ابھر رہا ہے ۔ جنگ کا مارا ہوا ویت نام اس وقت چھ سے سات فیصد سالانہ کی شرح سے ترقی کررہا ہے۔ اس کی برآمدات اس کی مجموعی قومی پیداوار کے مساوی ہیں۔ ویت نام کی حکومت نے انفراسٹرکچر اور ہیومن ریسورس پر بے پناہ سرمایہ کاری کی ہے۔ اس وقت دنیا کی صف اول کی کمپنیوں جن میں سام سنگ‘ نائیک اور درجنوں دوسری کمپنیاں شامل ہیں۔ ویت نام میں اپنے پراڈاکٹس تیارکررہی ہیں۔ ویت نام کی آبادی کا ساٹھ فیصد سے زیادہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ویت نام نے کئی ملکوں کے ساتھ آزادانہ تجارت کے سمجھوتے کئے ہیں۔ ویت نام نے اپنی معیشت میں وسیع پیمانے پر اصلاحات کی ہیں۔ اس کے علاوہ ویت نام نے اپنے ملک میں تجارت کرنے کے لیے سہولتیں فراہم کی ہیں۔ یعنی EASE OF DOING BUSINESS کا ماحول پیدا کیا ہے۔ جاپان‘ کوریا اور چین نے ویت نام میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔
وطن عزیز جن معاشی مشکلات کی چنگل میں پھنسا ہوا ہے ان مشکلات کے خاتمے کے لیے ہمارے ملکی اور غیر ملکی معیشت دان مختلف نسخے تجویزکرتے رہے ہیں۔ عالمی ماہرین کی طرف سے ہمیں مشورہ دیا جاتا رہا کہ ہم اپنی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے اصلاحات لائیں۔ عالمی بنک ہو‘ آئی ایم ایف یا دوسرے ادارے ہمیں ریفارمز کا مشورہ دیتے چلے آئے ہیں۔ ہم نے قرضوں کے حصول کے لیے اصلاحات لانے کے تحریری سمجھوتے بھی کئے لیکن ان پر عملدرآمد نہیں کیا ملک معاشی دلدل میں پھنستا چلا گیا۔ گزشتہ 25اور 30 برس میں ایشیاء کے کئی ملک جو کم وبیش پاکستان کے ساتھ ساتھ آزاد ہوئے ہیں۔ پالیسیوں کے تسلسل ‘ محنت اور دیانت داری سے کام کرکے ہم سے بہت آگے نکل گئے ہیں بدقسمتی سے ہم بحثوں میں اُلجھے رہے‘ باتیں کرتے رہے‘ عملاًکچھ نہیں کیا جس سے ہم ایک گرے معاشی بحران میں پھنس گئے ہیں۔