حیران کن بات ہے کہ آخر پاکستان اور اسلام و مسلمان دشمن بھارت کی ہندو حکومت سے ادویات درآمد کرنے کی اجازت کس نے دی۔ وفاقی کابینہ اس دوران یقیناً محو خواب نہیں ہوگی؟ یہ اجازت باقاعدہ بقائمی ہوش وہواس مخصوص مفادات کے حامل ان عناصر نے حاصل کی ہوگی جو وفاقی کابینہ میں اپنے احسن اور مفادات کے فیصلے منوانے کی قدرت رکھتے ہیں۔ یقیناً یہی وہ نقب زن ہیں جو وزیراعظم عمران خان کے اعضاء و جوارح میں جگہ پا چکے ہیں۔ ورنہ کسی ایسی قیادت سے ایسے فیصلوں کی توقع ناقابل یقین ہے جس کی زبان بھارت کے اسلام اور مسلمان دشمن پراپیگنڈے کا عالمی سطح اور عالمی فورم پر جواب دیتے ہوئے بھارتی حکومت کے عزائم کا پردہ چاک کرنے میں کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتی ہو۔
گزشتہ دنوں نوائے وقت میں اسلام آباد کے حوالے سے شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق عمران خان نے زندگی بخش ادویات کی آڑ میں بھارت سے معمول کی ادویات اور وٹامنز کی درآمد کے معاملات کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ادویات اور وٹامنز کی درآمد کا انکشاف کابینہ کے گزشتہ اجلاس میں ہوا۔ یہ بات کس قدر باعث افسوسناک ہی نہیں بلکہ قابل نفرت اور قومی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہے کہ یہ عقدہ اس وقت کھلا جب بھارت سے مزید 429 ادویات درآمد کرنے کی سمری وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پیش ہوئی۔ وزیراعظم عمران خان کے استفسار پر معاون خصوصی صحت اور سیکرٹری صحت کابینہ اجلاس کے شرکاء کو مطمئن نہ کرسکے تو ڈاکٹر ظفر مرزا نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ ادویات کی فہرست کی تیاری میرے علم میں نہیں؟
بلاشبہ وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کے غیرت مند عوام کے غم وغصے کو ٹھنڈا کرنے کی خاطر بھارت سے ادویات اور وٹامنز کی درآمد کی تحقیقات کا حکم تو دے دیا ہے مگر محض تحقیقات کا کہہ دینے سے حکومت کی پوزیشن کا اس معاملے میں صاف ہونا ممکن نہیں۔ پاکستان کے عوام بھارت کی موجودہ ہندو برسراقتدار قیادت کی طرف بھارت کے 30کروڑ کے لگ بھگ مسلمانوں سمیت وادیٔ کشمیر کے پرستاران توحید کو خاک وخون میں تڑپانے اور خواتین کی بھارتی فوجی درندوں کے ہاتھوں عصمتوں کی پامالی کا سلسلہ جاری رہنے پر موت قبول کر سکتے ہیں مگر بھارت ایسے اسلام اور انسانیت دشمن ملک سے عام ادویات تو ایک طرف رہیں وہ لائف سیونگ ادویات پر لعنت بھیجنا پسند کرتے ہیں۔مسلمانوں کے جانی دشمن بھارت سے ادویات یا زندگی بخش ادویات درآمد کرنے والے ایسے عناصر کون ہیں جو موجودہ حکومت کے اعضاء وجوارح کے طور پر سرگرم عمل ہیں اور انہیں ادویات کی درآمد کے لئے بھری دنیا میں صرف بھارت پر ہی ان کی نظر عنایت کیوں ہوئی ہے کہ وہ اس سے ادویات درآمد کرنے پر مصر ہوئے؟یہ قومی ہی نہیں ملکی سلامتی کے تحفظ اور حکومتی مشینری میں بھارت سے تجارتی تعلقات استوار کرنے کے خواہاں مخصوص مفادات کے حامل عناصر کی نشاندہی کا معاملہ ہے۔ ایسے چہروں کو بے نقاب کرکے ہی ارباب حکومت عوام کے آگے سرخرو ہونے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔سیدھی بات ہے کہ بھارت کی کنٹرول لائن پر آئے دن خلاف ورزی اور بلااشتعال بھاری اور ہلکے ہتھیاروں سے فائرنگ کے نتیجے میں بے گناہ پاکستانی شہریوں سمیت عساکر پاکستان کے جوانوں کی شہادت ایسے روح فرسا واقعات میں قوم کا کوئی غیرت مند فرد بھی بھارتی ادویات کا استعمال گوارا نہیں کرسکتا جبکہ اس مقصد کیلئے کرہ ارض کے ان گنت ممالک پاکستان کو ادویات کی فراہمی کرنے کو تیار ہوں گے۔ اسی حوالے سے پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ میاں شہبازشریف نے وفاقی کابینہ کو مورد الزام ٹھہرایا ہے اور بجاطور پر ادویات کی فراہمی کی منظوری اور درآمد کو سنگین جرم قرار دیا ہے۔ درحقیقت یہ مسئلہ ہی ایسا ہے کہ اس پر حزب اختلاف کی طرف سے صدائے احتجاج بلند کرکے عوام کی ترجمانی کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے کیونکہ بھارت نے اپنے جارحانہ رویوں سے پاکستان کے خلاف غیر اعلانیہ جنگ شروع کر رکھی ہے۔
حکومت اس حوالے سے قومی غیرت کے تقاضوں کی روشنی میں واشگاف الفاظ میں بھارت سے نہ صرف ادویات بلکہ کسی بھی شے کی درآمد نہ کرنے کا اعلان کرے بلکہ پالیسی ساز حکومتی اداروں میں چھپے ایسے عناصر کو بلاتاخیر فارغ کر دیا جائے جو مخصوص مفادات کے تحت قومی غیرت اور اُمنگوں کو روندتے ہوئے بھارت سے تجارتی تعلقات کا ڈول ڈالنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ (ختم شد)
ایسے فیصلے کیونکر؟
May 19, 2020