پنجابی کا محاورہ ہے " جس تن لاگے اوہی تن جانے" کیونکہ آج کا کالم ہی کچھ اس طرح کا ہے، اس لئے اس محاورے کی اصل روح بیان کرنے کیلئے اپنے شہر لاہور ہی کے ایک قصے کا سہارا لینا چاہونگا۔ بقول راوی پرانے وقتوں میں اور بہت سی صفتوں کے علاوہ اس شہر لاہور کا ایک حسن یہ بھی تھا کہ جہاں سڑکوں کے اطراف آپ کو اکثر سنیاسی بابوں کی دکانیں اور فٹ پاتھوں پر بیٹھے طوطا فال والے نجومیوں کی بہتات نظر آتی تھی وہیں پر گلی محلوں اور ان سڑکوں کے پچھواڑوں میں آپ کو ایسے مقامات بھی دیکھنے کو ملتے تھے جہاں پر کچھ لوگ گدڑیاں بچھائے اپنا مسکن کچھ اس طرح سجاتے اور بظاہر اپنے رکھ رکھاؤ اور رہن سہن کے ذریعے اس بات کا اظہار کر رہے ہوتے کہ جیسے ان کا اس دنیا سے کوئی تعلق ہی نہیں اور وہ تمام دنیاوی معاملات سے صرف بے نیاز ہی نہیں بلکہ اس بے رخی میں اپنے دعوی پر مہر ثبت کرنے کیلئے بعض اوقات وہ اپنے کردار اور عمل سے ایسی ایسی حرکات کے مرتکب ہوتے کہ دیکھنے والے پر اس یقین کے علاوہ اور کوئی چارہ ہی نہیں رہتا کہ کوئی ذی ہوش یا دل گردہ رکھنے والا شخص جس کو اس دنیا سے رتی بھر بھی رغبت ہے، وہ ایسا فعل کر سکے۔ اپنی بات کوآگے بڑھانے کیلئے صحافتی آداب بجا لاتے احتیاطً اگر لفظ اکثریت نہ لکھ سکوں تو پھر بھی یہ کہنے کی اتنی جسارت کر سکتا ہوں کہ یہ ہمارے معاشرے کا ایک المیہ ہے کہ مجھ سمیت ہم میں سے کچھ کے ذہنوں اور دلوں میں ضعیف العتقادی کا ایک ایسا بوٹا جڑ پکڑ چکا ہے کہ ہم بسا اوقات ایسے حضرات جو بظاہر فقیروں اور ملنگوں کا روپ دھارے ہوتے ہیں، ان کی ایسی ایسی غیر منطقی اور غیر شرعی باتوں کو بھی فقیر کی موج کا درجہ دیتے ہیں جس کو عقل اور شعور تو ماننے کو کسی صورت تیار نہیں ہوتے جبکہ عام فہم بھی ایسی حرکات کو کسی اور نام سے ہی پکارتی ہے، جس واقعہ کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروانے جا رہا ہوں۔ وہ کچھ اس طرح ہے کہ اس شہر لاہور میں بظاہر مجذوب کا روپ دھارے ایک شخص کا معمول تھا کہ جب کبھی اسے معلوم ہوتا یا اس نے کوئی جنازہ دیکھنا تو اس نے اپنے پاؤں کے اوپر گھنگروں باندھنے اور یہ نعرہ مستانہ بلند کرتے کہ "مرنا حق سچ ہے" جنازے کے آگے دھمال ڈالنی شروع کر دینی۔ یہ دیکھ کر گھر والوں کو تکلیف بھی ہونی اور غصہ بھی آنا لیکن وہی ضعیف العتقادی ہر چیز پر حاوی آ جاتی اور مجھ جیسے اس عمل کو معرفت کی بات کا درجہ دیتے درگزر کا مشورہ دیتے۔ وقت کا پہیہ چلتے چلتے خدا کا کرنا ان ملنگ صاحب کا اپنا جوان بیٹا فوت ہو گیا۔ جنازہ تیار ہوا، ملنگ صاحب نے حسب معمول گھنگرو باندھے اور جنازے کے آگے دھمال ڈالنے کیلئے ابھی پاؤں اٹھایا ہی تھا کہ دھڑم سے غش کھا کر زمین پر گر پڑے۔ اتنے میں علاقے کا ایک سیانا جو مدتوں سے اس کھیل کا چشم دید گواہ تھا، آگے بڑھا اور گھنگرؤ باندھے شخص کا گریبان پکڑ کر اسے کھڑا کرتے پوچھنے لگا کہ سائیں بول آج تمہارے پاؤں تمہارا ساتھ کیوں چھوڑ گئے۔ قارئین آپ سننا چاہیں گے کہ بے بسی کی تصویر بنے اس ملنگ نے کیا کہا، جی اس کی زبان سے صرف یہ الفاظ نکلے "جس تن لاگے اوہی تن جانے"۔ دوستو! پچھلے تین چار ماہ سے جب سے اس کرونا کی وباء آ نے پوری دنیا میں شدت پکڑی ہے، اس پر بے شمار تھیوریاں پڑھنے اور سْننے کو مل رہی ہیں۔ کچھ کے نزدیک یہ انتہائی مہلک جبکہ ہمارے ہاں اکثریت کا طرز عمل جو خصوصاً پچھلے ایک ہفتے سے ہم نے اپنایا ہوا ہے اسے دیکھ کر راقم یہ لکھنے پر مجبور ہے کہ ہم اس وباء کو کچھ نہیں سمجھ رہے اور ہمارے نزدیک اس کی حیثیت صرف ایک پروپیگنڈہ سے زیادہ کچھ نہیں جو کچھ عالمی قوتیں اپنے مخصوص عزائم کی تکمیل کیلئے کر رہی ہیں۔ دوستو! شائد راقم بھی اس دوسرے نظریے سے اتفاق کر لیتا اگر اس کی اپنی آنکھوں کے سامنے اس کا اپنا حقیقی بھائی اعجاز احمد گزرے ہفتے اس موذی بیماری کے ہاتھوں اپنی جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھتا۔ جی دوستو! میرا مرحوم بھائی جو ہر سال ٹوبہ ٹیک سنگھ اور چکوال اپنے غریب اور نادار بھائی بہنوں کے آنکھوں کے علاج کیلئے آئی کیمپ لگانے لندن سے پاکستان آتا تھا، اس سال بھی 25 فروری کو پاکستان آیا اور اللہ کے راہ میں اپنا کام کر کے 8مارچ کو واپس لندن چلا گیا اور پھر چند ہی دنوں بعد اس وائرس کا شکار ہو کر چار ہفتے وینٹی لیٹر پر رہنے کے بعد اللہ کے گھر کو پیارا ہو گیا۔ بہت سے دوستوں کی طرح میں بھی بڑی فلسفیانہ گفتگو کرتا رہا ہوں لیکن بقول ملنگ جب اپنے تن پر گزری ہے تو سمجھ آئی ہے کہ یہ کیا بلا ہے۔ دوستو! بیشک اپ سب کچھ چھوڑ کر گھر نہیں بیٹھ سکتے۔ بقول آپکے وزیراعظم بیشک ہر ملک کو اپنے جغرافیائی محل وقوع ، معاشی ، معاشرتی اور مذہبی معاملات اور حالات دیکھ کر فیصلے کرنے پڑتے ہیں لیکن یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ان سب حقیقتوں کے باوجود ہر قوم کو ہر فیصلے کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ فیصلہ اب دوستوں آپ کے اپنے ہاتھوں میں ہے۔ آخر میں سب دوستوں سے بھائی اعجاز کی مغفرت کیلئے دعا کی درخواست ہے۔