پاکستان پیپلز پارٹی کو پنجاب نے خونِ جگر دیا۔ اسے زمین سے آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ شہیدذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی طلسماتی شخصیت کے باعث پی پی پی چارر بار اقتدار میں آئی۔ خود کو بڑے کھلاڑی کہنے والوں کے رحم و کرم پر پارٹی آئی تو محترمہ کی شہادت سے لاوارث ہونے کی وجہ سے پانچویں بار اس کے مرکز میں اقتدار میں آنے کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ 2018ء کے انتخاب میں پی پی سندھ تک ثمحدود ہو گئی۔ اب جو کچھ اس کی قیادت نے عوام کے ساتھ کر دیا ہے سندھ بھی ان کے ہاتھوں سے نکلتا دکھائی دیتا ہے۔
ستر کے انتخابات میں پنجاب نے پی پی پی کو مرکز میں حکومت بنانے کے قابل بنایا۔ اس کے بعد تین بار اقتدار میں بھی پنجاب ہی کی مرہون آئی۔ ذوالفقار علی بھٹونے پی پی پی کی بنیاد کہاں رکھی ؟ لاڑکانہ یا نواب شاہ میں نہیں لاہور میں رکھی۔ انہوں نے پنجاب پر اعتماد کیا تو پنجاب نے بھی ان کو اقتدا رمیں لا کر حق ادا کر دیا۔ آج پی پی پی کا وجود کہیں دکھائی دیتا ہے تو پنجاب میں اس کی ڈالی گئی اساس کے باعث ہی ہے۔ شہید ذوالفقارعلی بھٹو اور بے نظیر شہید پنجاب کی پی پی پی کے لیے قربانیوں کی ممنون تھیں مگر بعد کی اور بالخصوص آج کی قیادت اپنے کرتوتوں ،کرپشن اور لوٹ مار کے باعث ناکامیوں اور عدم مقبولیت کی پستی میں گرنے پر غصہ پنجاب پر نکال رہی ہے۔ پنجاب کو نفرت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جب ووٹوں کی ضرورت ہوگی تو اعلیٰ قیادت گھٹنوں کے بل چلی آئے گی مگر اب شاید پنجاب تو کیا سندھ بھی اس پر اعتماد نہ کرے۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے درست کہا ہے کہ تگڑے ہو جائو ہم آ رہے ہیں۔ اب پی پی کو سندھ کارڈ بچاتا نظر نہیں آ رہا۔ کرونا نے پوری دنیا میں تباہی پھیلا دی۔ پاکستان بھی اس کی زد میں آیا۔ سندھ نے مرکز کی منشاء کے برعکس چلنے کی کوشش کی۔ پی ٹی آئی کی نفرت میں سلگتے ایک دو میڈیا گروپوں نے مراد علی شاہ کو ہیرو بنانے کی کوشش کی۔ وہ یقینا ہیرو ہوتے اگر صحت کا بجٹ صحت اور ہسپتالوں پر خرچ کیا ہوتا۔ کشتیوں میں ڈالروں کی داستانوں ،سرے محل کی کہانیوں اور فیک کائونٹس کی حقیقت سے کون انکاری ہو سکتا ہے اور اب کرونا کے دوران بھی گندم چوری ہو رہی ہے۔ سندھ سکولوں کارخانوں ،دکانوں ٹرانسپورٹ سمیت بند ہے جبکہ پٹوار خانے کھول دیئے گئے ہیں تاکہ گلشن کا کاروبار چلتا رہے۔ ٹاک شوز میں جو برا بھلا کہا جا سکتا تھا کہا گیا ایسے میں اینکر اقرار الحسن نے پی پی پی کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی تو پی پی کی اعلیٰ و ادنیٰ قیادت ذاتیات پر اتر آئی۔ سندھ کی پی پی قیادت پنجاب کے ساتھ برادرِ یوسف جیسا رویہ اختیار کئے ہوئے ہے۔ پنجاب پاکستان کو ہمیشہ سے متحدہ رکھنے کا یارا کرتا رہا۔ بلوچستان میں ایسی ہی بی ایل اے وغیرہ نفرت پھیلا رہی ہیں ۔کون ان کے پیچھے ہے ؟کوئی بھی ہو ان کا قلع قمع کرنے کی ضرورت ہے ۔جو اب ہورہا ہے۔ پنجاب میں تو نفرت کا جواب کبھی نفرت سے دیا گیا نہ کوئی پاکستان کی یکجہتی کے خلاف تحریک اور آواز سنائی اُٹھی۔
آج پی پی پی اور ن لیگ کی قیادت سے ان کی جائیدادوں کا حساب مانگا جاتا ہے تو پاکستان کی اساس پرحملے شروع ہو جاتے ہیں۔ صوبائی وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے درست کہا ہے کہ آل شریف اور آل زرداری ٹی ٹی ماسٹر ہیں اور یہ دونوں خاندان سر کے بالوں سے لیکر پاؤں کے ناخن تک کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ انکے چہروں کی لالی میرے اور عوام کے خون پسینے کی کمائی سے چوسے ہوئے خون سے نمایاں ہوتی ہے تاہم اب انکے چہروں کی یہ لالی بہت جلد ختم ہونے والی ہے۔پیپلز پارٹی نے پچھلے 72 سالوں میں مرکز میں حکومت بنائی اس کی وجہ اس کا پنجاب سے جیتنا ضروری تھا۔ اب اگر پنجاب کے عوام کی آنکھیں کھل گئی ہیں اور وہ بھٹو زندہ ہے یا مردہ سے سے کوئی سروکار نہیں رکھنا چاہتے۔تو پیپلز پارٹی کی قیادت کو بوکھلاہٹ کیوں ہے۔کراچی میں سندھی مکرانی بہاری آ کر بس جائیں تو یہ حلال ہے مگر لاہور، لائلپور ،سیالکوٹ ،پشاور اور میرپور کا پاکستانی کراچی کو اپنا مسکن بنائے تو یہ حرام جے؟ پی پی پی کو اب نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے۔اب کرپشن کی کمائی ان کی رگ و پا سے نکال کے قومی خزانے میں جمع کروانی ہوگی۔اب سرے محل اور لوٹ مار کی سیاست کو خیرباد کہنا ہوگا اب جئے پاکستان کہنا ہو گا۔