مشاطہ کا ایمان اور کیڑے کی عبادت!

ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم شب معراج میں بیت المقدس کی طرف جاتے ہوئے مصر کے قریب ایک مقام سے گزرے تو انہیں نہایت ہی اعلیٰ اور زبردست خوشبو آنے لگی۔ آپؐ نے حضرت جبرائیل ؑ سے پوچھا کہ یہ خوشبو کیسی ہے؟ جواب ملا کہ ’’فرعون کی بیٹی کی باندی مشاطہ اور اس کی اولاد کی قبرسے آ رہی ہے‘‘ پھر جبرائیل ؑ نے اس کا قصہ بیان کیا کہ ’’مشاطہ فرعون کی بیٹی کی خادمہ تھی اور وہ اسلام لا چکی تھی ایک دن فرعون کی بیٹی کو کنگھی کرتے ہوئے اس کے ہاتھ سے کنگھی گر گئی، وہ اٹھانے لگی تو اس کی زبان سے بے ساختہ بسم اللہ نکل گیا۔ اس پر شہزادی نے کہا کہ تم نے آج عجیب کلمہ بولا۔ رب تو میرے باپ فرعون ہیں تو پھر تو نے یہ کس کا نام لیا ہے؟ اس نے جواب دیا فرعون رب نہیں بلکہ رب وہ اللہ ہے جو مجھے، تجھے اور خود فرعون کو روزی دیتا ہے۔ شہزادی نے کہا اچھا تو میرے باپ کے سوا کسی اور کو اپنا رب مانتی ہے؟ اس نے جواب دیا، ہاں ہاں میرا تیرا اور تیرے باپ سب کا رب اللہ تعالی ہی ہے۔ شہزادی نے اپنے باپ سے کہلوایا۔ وہ سخت غضباک ہوا اور اسی وقت اسے برسر دربار بلوا بھیجا اور کہا کہ تو میرے سوا کسی اور کو رب مانتی ہو؟ اس نے کہا میرا اور تیرارب اللہ تعالیٰ ہی ہے جو بلندیوں اور بزرگی والا ہے۔ فرعون نے اسی وقت حکم دیا کہ تانبے کی جو گائے بنی ہوئی ہے اُس کو خوب تپایا جائے اور جب بالکل آگ جیسی ہو جائے تو اس کے بچوں کو ایک ایک کر کے اس میں ڈال دیا جائے اور آخر میں اُن کی ماں کو بھی اسی آگ میں جلا دیا جائے۔ چنانچہ وہ گرم کی گئی جب آگ جیسی ہو گئی تو حکم دیا کہ اس کے بچوں کو ایک ایک کر کے اس میں ڈالنا شروع کردو۔ اس نے کہا بادشاہ ایک درخواست میری منظور کرنا، وہ یہ کہ میری اور میرے بچوں کی ہڈیاں ایک ہی جگہ ڈالنا۔ اس نے کہا اچھا تیرے کچھ حقوق ہمارے ذمہ ہیں اس لیے یہ منظور ہے۔ اس کی دونوں بچیاں اس کی آنکھوں کے سامنے اس آگ میں ڈال دی گئیں، وہ فوراً جل کر راکھ ہو گئیں، پھر سب سے چھوٹے بچے کی باری آئی، وہ ماں کی چھاتی سے لگا دودھ پی رہا تھا، فرعون کے سپاہیوں نے اسے گھسیٹا تو اس نیک بندی کی آنکھوںتلے اندھیرا چھا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس بچے کو اس وقت زبان دے دی اور اس نے بآوازِ بلند کہا۔ اماں جان افسوس نہ کر، اماں جان ذرا بھی پس و پیش نہ کرو۔ حق پر جان دینا ہی سب سے بڑی نیکی ہے۔ چنانچہ اسے صبر آ گیا۔ اس بچے کو بھی آگ میں ڈال دیا گیا، اور آخر ان کی ماں کو بھی اسی آگ میں ملا کر مار دیا گیا۔ یہ خوشبو کی مہکیں اس کی جنتی محل سے آ رہی ہیں‘‘ (مسند احمد، صحیح 2/31)ایک دن ابوجہل مسجد الحرام کے دروازے کے پاس آ بیٹھا۔ پیغمبر اکرمؐ مسجد سے باہر تشریف لائے تو وہ اپنا ہاتھ آستین سے باہر لایا اور کہنے لگا یا محمد ؐ بتائیے میری مٹھی میں کیا ہے۔ اگر آپ ؐ نے صحیح جواب دیا تو میں اپنے ساتھیوں سمیت آپؐ پر ایمان لے آئوں گا۔ حضور پر نور ؐ نے فرمایا تیرے ہاتھ میں ڈبیا ہے جو ٹاٹ لپیٹی ہوئی ہے۔ اس ڈبیا کے اندر تین موتی ہیں۔ ان میں سے ایک سوراخ شدہ ہے۔ دوسرا آدھا سوراخ شدہ اور تیسرا بغیر سوراخ کے ہے۔ اس ڈبیا میں ایک لعل بھی ہے جس میں ایک سرخ کیڑا ہے کیڑے کے منہ میں سبز پتی ہے۔ ابوجہل کہنے لگا یہ سب تو ٹھیک ہے
لیکن سرخ کیڑے اور سبز پتی کا کیسے علم ہوا؟ آپؐ نے فرمایا لعل کو توڑ دو معلوم ہو جائے گا۔ ابوجہل کہنے لگا کہ میں اس قیمتی لعل کو کیسے توڑ دوں۔ ایک صحابی کہنے لگے اپنے لعل کی قیمت لگا کر اسے توڑ دو۔ اگر رسول خداؐ کی بات (معاذ اللہ) درست نہ ہوئی تو قیمت میں ادا کروں گا۔ ابوجہل اس بات پر راضی ہو گیا۔ جب لعل توڑا گیا تو سب نے دیکھا کہ اس میں چھوٹا سا کیڑا منہ میں سبز پتی لیے ہوئے موجود تھا۔ رسول کریم ؐنے اس کیڑے سے دریافت کیا کہ تم کب سے اس لعل میں ہو۔ کیڑے نے پہلے آپ ؐکی خدمت میں سلام عرض کیا پھر کہا مجھے نہیں معلوم لیکن اللہ تعالیٰ مجھے روزانہ تین سبز پتیاں عطا فرماتے ہیں آپؐ نے فرمایا تیرا ذکر اور تسبیح کیا ہے کیڑا کہنے لگا خدا نے مجھے روزانہ دس مرتبہ آپؐ پر درود بھیجنے کا حکم دیا ہے جس کی برکت سے مجھے روزی ملتی ہے۔
قارئین محترم! آج رمضان المقدس کے تیسرے عشرے کا دوسرا روزہے ۔ عبادت کے لحاظ سے یہ انتہائی اہم دن ہوتے ہیں، انہی دنوں میں لیلۃ القدر بھی آتی ہے۔ مسلمان کا روزہ ویسے بھی اللہ کریم کو بہت پسند ہے اور وہ اس کا اجر اور ثواب خود دیتا ہے۔ جس طرح فرعون کی بیٹی باندی مشاطہ اپنے رب کو مانتی تھی اور اس کی خاطر اپنے اور بچوں کی جان دی اگر اسی جوش و جذبے کے تحت ہم اپنے رب کو مانیں اور پھر رب کی مانیں تو کیا سمجھتے ہیں کہ رب تعالیٰ ہماری زندگیاں ویسی ہی خوشبوئوں سے نہ بھر دیں گے۔ کیا ہمارے اس جذبہء ایمانی کو دیکھ کر کفر بھی اسلام کی طرف مائل ہونا نہ شروع ہو جائے گا۔ آئے روز یہ جو سازشیں ہمارے خلاف ہو رہی ہیں کیا اسی جذبہ ایمانی کے تحت ہم ان کا ڈٹ کر مقابلہ نہ کر سکیں گے۔ کیا یہ ہمارا ایمان نہیں ہے کہ مارنے سے بچانے والا زیادہ بڑا اور مضبوط ہوتا ہے۔ ہمارے دماغوں میں یہ کیوں بیٹھا ہے کہ یہودی بہت ہی طاقتور، پیسے والے اور مضبوط ہیں۔ کیا انہوں نے اسی قرآن مجید سے تحقیق نہیں کی اور کیا ان کی ترقی کا راز ہماری یہی مقدس کتاب نہیں ہے تو ہم کیوں احساسِ کمتری کا شکار ہیں؟ ہمارے اندر کا مسلمان اور اسلام کیوں ختم ہو چکا ہے۔ ابوجہل کے ہاتھ میں پکڑی ڈبیا میں موجود لعل کے اندر کیڑے کو روز تین دفعہ اگر ہمارا رب رزق پہنچا سکتا ہے تو ہم کیسے بھوکے رہ سکتے ہیں۔ ہاں ضرورت اس اَمر کی ہے کہ ہمارا رب تعالیٰ پر ایمان مشاطہ کی طرح اور عبادت اور تسبیح اس کیڑے کی طرح ہونی چاہئیے۔ کیا ہم یہ عہد اور تہیہ کر سکتے ہیں کہ رمضان کے آخری دن ہماری زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ بن سکتے ہیں! اگر ہماری نیت درست ہے اور اراد مضبوط ہیں تو آئیں مل کر فیصلہ کریں کہ ہم نے کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر اپنے رب تعالیٰ کو راضی کرنا ہے۔ اپنی دانستہ یا نادانستہ غلطیوں کی معافی مانگنی ہے۔ اپنے آپ کو غیر مشروط طور پر رب کریم کے حضور پیش کرنا ہے۔ سربسجود ہو کر زارو قطار رو رو کر گریہ زاری کرنا ہے کہ رب تعالیٰ آپ کا یہ وعدہ ہے کہ بنی نوح انسان غلطیوں کا پتلا ہے گناہ کرنا اس کی خصلت میں ہے۔ مگر ندامت اور شرمندگی محسوس کرتے ہوئے مجھ سے معافی مانگے تو میں اس کو معاف کر دوں گا۔ آئیں اس عہد کو سامنے رکھتے ہوئے نہایت شرمندگی سے دل کی گہرائیوں سے نہایت اخلاص سے رب تعالیٰ سے اپنی کوتاہیوں۔ غلطیوں اور نافرمانیوں کی معافی مانگیں اور نبی پاکؐ کو وسیلہ بنا کر ایک نئی زندگی گزارنے کا عزم کریں۔ وہ یقینا ہماری دعائیں اور التجائیں سنے گا اور پھر دیکھیے کہ ہم کس قدرسر تان کر اور چھاتی بلند کر کے جئیں گے اور انشاء اللہ ضرور جئیں گے!

ای پیپر دی نیشن