کروناکے ذریعے مذہبی اقدارکادائرہ محدود کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،مجلس تحفظ ختم نبوت

اسلام آبا(وقائع نگار خصوصی)وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کے سربراہ مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندروفاق المدارس العربیہ پاکستان کے نائب صدر اور دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مہتمم و شیخ الحدیث مولانا انوارالحق،وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے نائب صدر و دارالعلوم کراچی کے صدر مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی،دارالعلوم کراچی کے نائب صدر شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی،وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظمِ اعلی اور جامعہ خیرالمدارس ملتان کے مہتمم و شیخ الحدیث مولانا محمد حنیف جالندھری،جامعہ اشرفیہ لاہور کے مہتمم و شیخ الحدیث مولانا فضل الرحیم،جامعہ نصر العلوم گوجرانوالہ کے شیخ الحدیث مولانا زاہد الراشدی نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ جب سے دنیا کے مختلف علاقوں میں کورونا وائرس کا پھیلا شروع ہوا ہے، ایک بات مسلسل دیکھنے میں آ رہی ہے کہ بعض حلقوں کی طرف سے اسے مذہب اور مذہبی اقدار و روایات کا دائرہ محدود کرنے کے لئے بطور ہتھیار استعمال کرنے کی شعوری کوشش کی جا رہی ہے ،بالخصوص اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مسجد و مدرسہ اور عبادات و مذہبی تعلیم اس کا ہدف ہیں۔ مسجد کو بند کر دینے اور عبادات کا سلسلہ گھروں میں محدود کرنے کی پالیسی کو روکنے کے لئے اہل دین کے تمام طبقوں کو مشترکہ محنت اور اعلی سطی مذاکرات کے ذریعہ دنیا کو یہ مقف تسلیم کرانا پڑا کہ کورونا وائرس کے پھیلا کو روکنے کے لئے ہر قسم کی احتیاطی تدابیر اور پابندیوں کو قبول کرتے ہوئے مسجد کو کھلا اور عبادات کو بہرصورت جاری رکھا جائے گا۔اس سلسلے میں ایوان صدر نے بھی مثبت کردار ادا کیا جس پر ہم سب صدر محترم اور ان کے رفقا کے شکر گزار ہیں۔ مگر عمل درآمد کے عملی اقدامات کے دوران بہت سے مقامات پر سرکاری اہل کاروں کے تحقیر آمیز طرز عمل اور مسجد و اہل مسجد کی کردار کشی میں میڈیا کے بعض ذمہ دار حضرات کا افسوسناک رویہ بدستور جاری ہے، ایک طرف عوامی اجتماع کے دیگر مقامات کو بتدریج سہولتیں دی جا رہی ہیں اور معاشرتی ضروریات کو ملحوظ رکھتے ہوئے لاک ڈان میں نرمی دیکھنے میں آ رہی ہے جبکہ مسجد اور اجتماعی عبادت کو اس کا مستحق نہیں سمجھا جا رہا جس پر ملک بھر کے دیندار عوام دل گرفتہ اور بے چین ہیں۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ شروع ہی سے مذہب اور مذہبی روایات و اقدار کو کورونا وائرس کے پھیلا کا باعث قرار دینے کے ساتھ ساتھ اسے فرقہ واریت کے ساتھ جوڑنے اور فرقہ وارانہ کشیدگی و اشتعال انگیزی میں اضافے کا ذریعہ بنانے کے لئے استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا چنانچہ کورونا سے متاثر ہزاروں زائرین کو ملک میں واپس لاتے ہوئے اسے بیلنس کرنے کے لئے تبلیغی جماعت کو ہدف بنا کر فرقہ واریت کو ہوادینے کی کوشش کی گئی جسے اجتماعی دینی قیادت نے حکمت عملی اور تدبر کے ساتھ آگے نہیں بڑھنے دیا اور معاملات کو بڑی حد تک کنٹرول کر لیا گیا مگر اب اعتکاف پر پابندی اور 21 رمضان المبارک کو سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے یومِ شہادت کے موقع پر پیش آنے والے واقعات کی صورت حال بتا رہی ہے کہ کورونا وائرس کو مذہب اور مذہبی روایات کے خلاف استعمال کرنے میں پوری کامیابی حاصل نہ ہونے پر اب اس کا رخ فرقہ وارانہ کشیدگی کا ماحول گرم کرنے کی طرف موڑا جا رہا ہے اور مقصد اس کا بھی وہی نظر آتا ہے کہ مذہب، مذہبی روایات اور دین کے ساتھ عام آدمی کے تعلق کو بہرحال کمزور کر کے دین کو اس کے معاشرتی کردار سے محروم کر دیا جائے اور پاکستان کو ایک لادین یا فرقہ پرست ملک کے طور پر پیش کر کے قیام پاکستان کے تہذیبی و دینی مقاصد کو خدانخواستہ ناکام بنا دیا جائے۔یہ حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ جہاں حکومت اور ریاستی اداروں کو اس کے سنگین نتائج کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ان سے مجموعی پالیسی پر نظرثانی کا مطالبہ کیا جائے وہاں ملک بھر کے دینی حلقوں کی قیادتوں کو بھی ایک بار پھر مل بیٹھ کر ملک کے اسلامی، نظریاتی اور تہذیبی تشخص کے تحفظ کے لئے از سر نو صف بندی کی ضرورت کا احساس دلایا جائے جس کے لئے رمضان المبارک کے فورا بعد اجتماعی پیش رفت ضروری ہو گئی ہے، چنانچہ اس امر کے واضح اعلان کے ساتھ کہ ہم جہاں کورونا وائرس کی روک تھام کے لئے احتیاطی تدابیر و اقدامات کی مکمل پابندی کے عزم پر قائم ہیں وہاں یہ واضح کر دینا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ کورونا بحران کے حوالہ سے کسی پالیسی کو مذہب کے معاشرتی کردار کو محدود کرنے اور فرقہ واریت کو ابھارنے کے لئے بھی قبول نہیں کیا جائے گا اور دینی قیادتیں حسبِ سابق باہمی مشاورت و معاونت کے ساتھ ایسی ہر کوشش کو ان شا اللہ تعالی ناکام بنا دیں گے۔

ای پیپر دی نیشن