اس وقت جبکہ پوری قوم تاریخ کی خطرناک ترین کورونا وباء سے نبردآزما ہے اور اس سے نمٹنے کیلئے قومی یکجہتی اور اتحاد کی ضرورت ہے۔ حکومت‘ سابقہ پارلیمنٹ کے ذریعے منظور کی گئی متفقہ 18 ویں آئینی ترمیم کو منسوخ کرنے کی مہم چلائے ہوئے ہے۔ آئینی ترمیم میں تبدیلی کیلئے حکومت کو دوتہائی اکثریت درکا ہے جبکہ اسے بعض اتحادیوں کی حمایت سے صرف چند ووٹوں کی اکثریت حاصل ہے جو مقتدر قوتوں کی وجہ سے ہے۔ 18 ویں ترمیم کے ذریعے دو فوجی ڈکٹیٹروں کی جانب سے 1973 ء کے آئین کا حلیہ بگاڑنے والی ترامیم کو ختم کر کے اسے اصل حالت میں بحال کر دیا گیا جو آئینی ماہرین اور جمہوری قوتوں کی کئی ماہ کی محنت اور عرق ریزی سے ممکن ہوا۔ 18 ویں ترمیم کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے تحت تمام اختیارات پارلیمنٹ کو سونپ دئیے گئے جبکہ ڈکٹیٹروں نے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لیکر آئین کو پارلیمانی نظام سے صدارتی نظام میں تبدیل کر دیا تھا جبکہ ملکی تاریخ میں پہلی بار صدر آصف علی زرداری نے رضاکارانہ طور پر اپنے اختیارات سے دستبردار ہو کر وزیراعظم کو بااختیار بنا دیا ۔جنرل ضیاء الحق نے 1985ء میں غیرجماعتی انتخابات کے ذریعے منتخب آئین ساز اسمبلی کو اپنے آمرانہ اور غیر آئینی اقدامات کو آئینی تحفظ دینے پر مجبور کیا اور آٹھویں ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ کو توڑنے کا اختیار بھی اپنے ہاتھ میں لے لیا اس آئینی ترمیم کے تحت محمد خان جونیجو‘ محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کی منتخب حکومتوں کو برطرف کیا گیا جس کی وجہ سے ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا۔ طرفہ تماشا دیکھیے کہ فاروق لغاری نے اس اختیار کے تحت اپنی ہی پارٹی کی حکومت کو برطرف کر کے محسن کش کا کردار ادا کیا بعد میں میاں نواز شریف اور محترمہ بینظیر بھٹو نے سیاسی حکمت عملی سے صدر فاروق لغاری کو آٹھویں ترمیم کے تحت پارلیمنٹ توڑنے کے اختیار سے دستبردار ہونے پر مجبور کیا اور فاروق لغاری کو صدارت سے استعفیٰ دینا پڑا ۔ جنرل پرویز مشرف نے 17 ویں ترمیم کے ذریعے مجلس عمل اور ق لیگ کے تعاون سے یہ اختیار پھر حاصل کر لیا اور اس طرح اپنے غیر آئینی اقدامات کو تحفظ دلوا کر وردی میں اپنے آپ کو صدر منتخب کرا لیا جو ملکی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔
اٹھارویں ترمیم کی منظوری سے نہ صرف صوبوں کو سیاسی اور مالیاتی خودمختاری ملی بلکہ وفاق کو بھی استحکام ملا اس ترمیم کے تحت این ایف سی ایوارڈ کا اجراء ہوا جس سے وفاق کو 40 فیصد اور صوبوں کو 60 فیصد مالی اختیارات مل گئے تاکہ آئندہ احساس محرومی کی وجہ سے کسی اور بنگلہ دیش کے بننے کی راہ ہموار نہ ہو سکے اسکے نتیجہ میں شمالی مغربی سرحدی صوبے کے پختون عوام کو ’’خیبر پختونخواہ‘‘ کے نام سے ان کی شناخت ملی۔ ایک ٹی وی چینل نے چند روز پہلے ایک کلپ چلایا(یہ مارچ 2018 ء کی بات ہے) جس میں عمران خان اٹھارویں ترمیم کی تعریف کرتے دکھائی دئیے۔ لیکن اب اس پر انہوں نے یوٹرن لے لیا ہے ۔18 ویں ترمیم کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ 1973 ء کے آئین سے ملکی تاریخ کے سب سے بڑے ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کا نام آئین سے نکال دیا گیا ہے ۔ایک کالم نگار نے لکھا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کی وجہ سے سرائیکی صوبہ کیلئے طاقتور اور پاپولر تحریک کامیاب نہیں ہو سکی حالانکہ سرائیکی صوبہ کے قیام میں 18 ویں ترمیم نہیں بلکہ جنرل ضیا ء الحق کی متعارف کردہ آٹھویں ترمیم سب سے بڑی رکاوٹ ہے جس میں نئے صوبوں کے قیام کیلئے متعلقہ صوبے کی اسمبلی کی دو تہائی اکثریت کی منظوری ضروری قرار دی گئی ہے اگر بالفرض اٹھارویں ترمیم میں بہتری کی مزید گنجائش نکالنی ہے تو تمام سیاسی جماعتیں مشترکہ طور پر آٹھویں ترمیم کی اس شق کو ختم کریں جسکے تحت نئے صوبوں کیلئے متعلقہ اسمبلی کی دو تہائی اکثریت سے منظوری لازمی ہے ۔سرائیکی صوبہ کے قیام سے نہ صرف وفاق مضبوط ہو گا بلکہ سرائیکی وسیب کا احساس محرومی ختم ہو گا۔