تبدیلی کوئٹہ سے کراچی اور پھر لاہور پہنچے گی!!!!!

آنے والے دنوں میں ایک اور تبدیلی آنی والی ہے۔ یہ تبدیلی بہت سے لوگوں کو حیران بھی کرے گی بہت لوگ اس سے پریشان بھی ہوں گے اور ممکن ہے بہت سے لوگ ناراض بھی ہوں، کئی حلقوں کو بحث کے لیے نیا موضوع ملے گا، بعض اسے اچھی تبدیلی قرار دیں گے تو بہت سوں کو یہ تبدیلی ہضم نہیں ہو گی لیکن یہ تبدیلی آنے والی ہے۔
آپ حیران ہوں گے کہ تبدیلی تو دوہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں آ چکی تھی اب کون سی تبدیلی باقی رہ گئی تو یاد رکھیں بڑی تبدیلی حکومت میں تبدیلی سے آئی تھی اس کے بعد چھوٹی چھوٹی کئی تبدیلیاں آپ دیکھ چکے ہیں۔ حوصلہ نہ ہاریں تبدیلی کا سفر جاری ہے۔ اب بھی تبدیلی کی ہوائیں چل رہی ہیں۔ یہ بدلی بدلی ہوائیں تبدیلی کا پتہ دیتی ہیں۔ ویسے تو سپریم کورٹ سے کل بہت بڑی تبدیلی آئی ہے۔ جہاں سپریم کورٹ نے ملک بھر میں چھوٹی مارکیٹیں ہفتہ اتوار کو کھولنے رکھنے کے ساتھ شاپنگ مالز کھولنے کا بھی حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ چھوٹے دکانداروں کو نہ روکیں آپ دکانیں بند کریں گے تو وہ کرونا کے بجائے بھوک سے مر جائے گا۔ سیل مارکیٹیں بھی کھولیں انہیں ڈرانے دھمکانے کے بجائے سمجھائیں۔ سپریم کورٹ نے عوام کی مدد کے کاموں پر بھی سوالات اٹھائے ہیں، این ڈی ایم اے کی رپورٹ کو بھی غیر تسلی بخش قرار دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے لکھا ہے کہ صنعتیں اور کاروبار طویل عرصے سے بند ہیں یہ سلسلہ جاری رہا تو لاکھوں ورکرز سڑکوں پر ہوں گے۔ اتنی بڑی تباہی سے نمٹنا حکومت کے بس میں نہیں ہو گا۔ سپریم کورٹ نے وفاق اور صوبوں سے کرونا پر اخراجات کی تفصیلات بھی طلب کی ہیں۔
سپریم کورٹ کی طرف سے اٹھائے جانے والے تمام سوالات میں دلیل تھی اور ان بنیادی سوالات پر عدالت کو مطمئن کرنا ممکن نہیں تھا۔ حکومت نے ایسی پالیسی اختیار کی تھی کی کہ عدالت کو اس آدھا تیتر آدھا بٹیر پالیسی کے ساتھ عدالت میں یہی ہونا تھا جب آپ ہفتے میں چند روز مارکیٹیں کھول دیں اور چند روز بند کر دیں تو اس کی کیا دلیل ہو گی، جب آپ بازار کھول کر ان کے اوقات کار مقرر کر دیں تو بعد میں دکانیں نہ کھولنے کی کیا دلیل ہو گی، جب آپ مارکیٹیں کھول دیں اور شاپنگ مالز بند رکھیں تو اس بندش کا دفاع کیسے کریں گے۔ ایسی حکمت عملی کا قانونی دفاع مشکل ہوتا ہے اور جب ایک ہی طرح کے حالات میں مختلف شعبوں کے ساتھ مختلف برتاؤ نہیں کیا جا سکتا جب کسی ایک شعبے کو رعایت دیں گے تو دوسرے شعبے شور تو مچائیں گے۔ اب ریسٹورانٹس کھولنا پڑیں گے کیونکہ ان کی طرف سے مطالبات سامنے آئیں گے وہ بھی یہی دلیل سامنے رکھیں گے کہ ہم احتیاطی تدابیر پر عمل کریں گے ہر قسم کی یقین دہانی کروائیں گے تو سب کو رعایت دینے کے بعد انہیں کیسے روکا جائے گا۔
حکومت شروع سے ہی اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکام رہی یہی وجہ تھی کہ لگ بھگ دو ماہ کے لاک ڈاؤن میں بھی وائرس کو روکنے کے لیے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کیے جا سکے کیونکہ حکومت لاک ڈاؤن کرنے یا نہ کرنے کے درمیان میں لٹکی رہی۔ اس پالیسی میں ملک بھر میں کاروبار کا نقصان ہوا، معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، مالی اعتبار سے کمزور افراد کی زندگی زیادہ مشکل ہوئی اور کچھ حاصل نہ ہو سکا۔ حکومت مختلف شعبوں کو کھولنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی تھی سپریم کورٹ نے سب کے لیے آسانی پیدا کر دی ہے۔ اب تعلیمی اداروں کی باری آئے گی۔ اب ساری ذمہ داری عوام پر عائد ہوتی ہے کہ باہر نکلتے ہوئے احتیاطی تدابیر پر عمل کریں اس کے امکانات بہت کم ہیں لہذا ہمیں کرونا کے پھیلاؤ کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں کرونا کا جتنا شور مچایا گیا یا ڈرایا گیا تھا سب کچھ کھلنے کے بعد لگتا ہے مصنوعی مہنگائی کی طرح کرونا کا خوف بھی مصنوعی تھا اللہ کرے ہمیں دوبارہ لاک ڈاؤن، کاروبار کی بندش اور دیگر سختیوں کی طرف نہ جانا پڑے کیونکہ کسی میں اتنی سکت نہیں ہے۔ تاجروں کے مسائل بڑھے اور مختلف شعبوں سے وابستہ کروڑوں مزدور بے حال ہو چکے ہیں۔ اب کاروبار چلتے رہنے میں ہی ملک کی بھلائی ہے۔ اب یہ تبدیلی ضرور آنی چاہیے کہ کارخانے کھلے رہیں اور مزدور کی گاڑی کا پہیہ چلتا رہے۔
جس تبدیلی کی بات ہم شروع میں کر رہے تھے اس سے ملتی جلتی افواہوں کہ وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے تردید کی ہے۔ وزیر موصوف فرماتے ہیں کہ صوبوں میں گورنر راج کی حوالے سے سامنے آنے والی خبروں کو ملک دشمن عناصر کا پراپیگنڈہ قرار دیا ہے۔ خبریں پھیلانے والوں کی ہم اصلاح کیے دیتے ہیں۔ ہمارے باخبر دوستوں نے بتایا ہے گورنر راج کی خبریں پھیلانے والوں کے پاس مصدقہ اطلاعات نہیں کہ اصل میں ہونے کیا جا رہا ہے۔ دوست بتاتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں صوبوں میں گورنرز تبدیل ہو جائیں گے۔ بلوچستان میں بھی تبدیلی آئے گی، سندھ کے گورنر بھی بدلے جائیں گے۔ پنجاب کے گورنر ہاؤس میں بھی نیا چہرہ آئے گا آنے والے دنوں میں خیبرپختونخوا کا گورنر بھی نیا ہو گا۔ یہ اصل خبر ہے اب اس میں سے کسی نے گورنر راج نکالنا ہے یا اسے کوئی اور رنگ دینا ہے تو دے لے۔ اس تبدیلی کے واضح امکانات موجود ہیں۔ ٹیم میں اب تک ہونے والی تبدیلیوں سے عوام کو فائدہ نہیں پہنچا۔ دیکھنا یہ ہے کہ گورنروں کی تبدیلی سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ ایک بڑی مشق ہو گی اس کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف کو اندرونی طور پر بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ظاہر ہے جو ہٹائے جائیں گے وہ کچھ نا کچھ تو کریں گے۔ دیکھتے ہیں کہ یہ تبدیلی کب تک آتی ہے اور کیا اس تبدیلی سے کوئی حقیقی تبدیلی بھی آئے گی یا پھر عوام کو ایک مرتبہ پھر مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...