امریکا میں ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے شکار افراد میں اکثر تیسرے دن سونگھنے کی حس کم ہونے لگتی ہے جبکہ اسی عرصے میں بیشتر مریض چکھنے کی حس سے بھی محروم ہونے لگتے ہیں۔سنسیناٹی یونیورسٹی کالج آف میڈیسین کی تحقیق میں بتایا گیا کہ نتائج سے مریضوں کی شناخت میں آسان ہوسکے گی اور انہیں اینٹی وائرل علاج سے فائدہ بھی ہوسکے گا.درحقیقت مارچ سے ہی سائنسدانوں کی جانب سے سونگھنے اور چکھنے کی حسوں میں اچانک کمی آنا یا مکمل ختم ہوجانا کورونا وائرس کی علامات کا حصہ قرار دیا جارہا ہے۔درحقیقت بیشتر اوقات تو یہ سب سے پہلے نمودار ہونے والی علامات ہوسکتی ہیں، جس کے بارے میں ابھی کہا جاتا ہے کہ بخار سب سے پہلے اور عام ترین علامت ہے۔مارچ میں رائل کالج آف سرجنز آف انگلینڈ کی تحقیق میں کہا گیا کہ سونگھنے کی حس سے محرومی کو پہلے ہی وائرسز سے جوڑا جاتا ہے کیونکہ ایسے 40 فیصد کیسز کسی وائرل انفیکشن کے بعد رپورٹ ہوتے ہیں۔تحقیق کے مطابق متعدد ممالک میں کووڈ 19 کے مریضوں کے ڈیٹا میں اضافے سے یہ ٹھوس اشارہ ملتا ہے کہ بیشر مریضوں کو اس مرض کی علامات کے دوران سونگھنے کی حس سے محرومی کا سامنا بھی ہوتا ہے۔کیلیفورنیا یونیورسٹی کی حالیہ تحقیق کے مطابق حال ہی میں اچانک سونگھنے یا چکھنے کی حس سے اچانک محرومی کا سامنا کرنے والے افراد میں کسی اور انفیکشن کے مقابلے میں نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کا امکان 10 گنا زیادہ ہوسکتا ہے۔ان شواہد کو دیکھ کر اپریل کے آخر میں امریکا کے اہم ترین طبی ادارے سینٹرز فار ڈیزیز پریونٹیشن اینڈ کنٹرول (سی ڈی سی) نے اسے 6 نئی علامات کا حصہ بھی بنایا تھا۔اب اس نئی تحقیق میں بتایا گیا کہ سونگھنے کی حس میں اچانک کمی اور کووڈ 19 کے درمیان تعلق موجود ہے جس کے بارے میں شعور اجاگر کیا جانا چاہیے۔تحقیق کے مطابق اگر کسی فرد میں اچانک سونگھنے اور چکھنے کی حسیں متاثر ہوتی ہیں تو ہمیں معلوم ہوسکتا ہے کہ یہ کووڈ 19 کا پہلا ہفتہ ہے اور مزید ایک یا 2 ہفتے میں اس کی شدت بڑھ سکتی ہے۔تحقیقی ٹیم نے اس مقصد کے لیے سوئٹزرلینڈ کے 103 مریضوں میں علامات کی جانچ پڑتال کی تھی جن میں 6 ہفتوں کے دوران کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی۔ان مریضوں سے یہ بھی پوچھا گیا کہ کووڈ 19 کی علامات نمودار ہونے میں کتنے دن لگے، جبکہ دیگر علامات کے ساتھ سونگھنے اور دیکھنے کی حسوں کی صلاحیت میں کمی یا اچانک محرومی کے وقت کے بارے میں پوچھا گیا۔نتائج سے معلوم ہوا کہ کم از کم 61 فیصد مریضوں نے سونگھنے کی حس میں کمی یا محرومی کو رپورٹ کیا اور ایسا بیماری میں مبتلا ہونے کے 3 سے 4 دن بعد ہوا۔جریدے جرنل Otolaryngology ہیڈ اینڈ نیک سرجری کے آن لائن ایڈیشن میں شائع تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ یہ علامات نوجوان مریضوں اور خواتین میں زیادہ عام ہوتی ہے۔محققین کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ بھی دریافت کیا کہ سونگھنے کی حس کے مسائل کی شدت اور کووڈ 19 کی دیگر علامات کی شدت کے درمیان بھی تعلق موجود ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر سونگھنے کی حس مکمل طور پر ختم ہوجائے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مریضوں کو کووڈ 19 کی شدید علامات جیسے سانس لینے میں دشواری، زیادہ تیز بخار اور کھانسی کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔محققین نے یہ بھی بتایا کہ ایسے کچھ مریضوں کے علاج میں اینٹی وائرل دوا ریمیڈیسیور کے نتائج حوصلہ افزا رہے ہیں۔ ماضی میں بھی کسی وائرل انفیکشن کے دوران ابتدا میں اینٹی وائرل ادویات بہترین اثر رکھتی ہیں اور اگر ریمیڈیسیور وسیع پیمانے پر دستیاب ہو، تو سونگھنے کی حس کے مسائل سے مریضوں کی شناخت آسان ہوجائے گی اور انہیں یہ دوا فوری طور پر دی جاسکے گی۔اس تحقیق میں ایک اہم دریافت یہ تھی کہ 50 فیصد مریضوں کی ناک بند یا زکام کی شکایت تھی جبکہ 35 فیصد کو بہتی ناک کا سامنا تھا، یہ اس لیے اہم ہے کیونکہ سابقہ تحقیقی رپورٹس میں عندیہ دیا گیا تھا کہ علامات کووڈ 19 کے مریضوں میں نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں،محققین کے مطابق کووڈ 19 کی ناک سے متعلق علامات کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگ بہتی ناک کے ساتھ لوگوں میں یہ سوچ کر نہ جائیں کہ یہ سب ٹھیک ہے یہ تو بس الرجی کا اثر ہوسکتا ہے، درحقیقت یہ کووڈ 19 کی علامت بھی ہوسکتی ہے اور ماسک پہننا دیگر کو اس سے بچاسکتا ہے۔