سماجی انصاف 

May 19, 2021

آج جس موضوع پر لکھنے جا رہا ہوں وہ اپنی نوعیت کا انتہائی حساس اور نازک معاملہ ہے لہذا اگر میری کم علمی یا اختلافی سوچ کی وجہ سے کسی بھی فرد یا فرقہ کے جذبات کو ہلکی سی بھی ٹھیس پہنچے تو یہ خاکسار اْن سے پیشگی معذرت کا طلبگار ہے۔ بات چلتی ہے سوشل میڈیا پر زیر گردش اس ایک کلپ سے جس میں حکومت کے ایک وفاقی وزیر اور سعودی عرب کے کچھ آفیشلز فطرانہ کے حوالے سے کسی ایک تقریب میں اکٹھے نظر آ رہے ہیں۔ اس تصویر کا سوشل میڈیا پر آنا تھا کہ اس پر اسقدر شور و غْل اور واویلا شروع ہو گیا اور قومی غیرت کے حوالے سے اس پر اس طرح بحث اور تنقید شروع ہو گئی جیسے کسی دشمن نے وطنِ عزیز پر کوئی حملہ کر دیا ہو۔ میں کوئی عالم یا مفتی نہیں ہوں جو اس مسئلے پر اپنا نقطہ نظر پیش کر سکوں۔ یوں تو کتابوں کی کتابیں اس علم سے بھری پڑی ہیں کہ فطرانہ اور زکوٰۃ کی لفظی اور معنوی تعریف کیا ہے اور انکی ادائیگی کن کے اوپر فرض ہے اور اسکے کون مستحقین ہیں۔ جگہ کی بندش کی وجہ سے تفصیلاً تو شاید نہ لکھ سکوں لیکن کوشش ہو گی کہ اسکا مختصر اور جامع خاکہ پیش کر سکوں۔
فطر یا فطرانہ، ایک خیرات سے متعلقہ اسلامی اصطلاح ہے۔ اسلام میں اس کو رمضان میں فرض کیا گیا ہے۔ صدقہ فطر ہر صاحبِ استطاعت مسلمان پر یکم رمضان کی صبح طلوع ہوتے ہی واجب ہو جاتا ہے۔ اور اس کے ادا کرنے کا آخری وقت نماز عید سے پہلے تک ہے۔ فطرانہ بھی انہیں آٹھ مصارف میں تقسیم کیا جائے گا جن میں زکوٰۃ تقسیم کی جاتی ہے ، جمہور علماء کرام کا قول یہی ہے۔ مالکیہ اورامام احمد کی ایک روایت اورابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہ اختیار کیا ہے کہ فطرانہ فقراء اور مساکین کے ساتھ خاص ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : فطرانہ بھی انہیں میں تقسیم کیا جائے گا جن میں مال کی زکوٰۃ تقسیم ہوتی ہے اس میں کسی اور پر کفایت نہ ہوگی۔ فطرانہ غرباء و مساکین ، اور غلام جو مکاتب ہوں اور آزادی حاصل کرنے والوں اور فی سبیل اللہ اورمسافروں میں تقسیم کیا جائے گا۔ حوالہ: کتاب الام  ابن عباسؓ اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذؓ  کو فرمایا:
 زکوٰۃکے مستحق فقراء اور وہ مقروض لوگ ہیں جواپنے قرضے ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے ، یا پھر ان کی تنخواہ مہینہ کے آخر تک پوری نہیں آتی ، تویہ لوگ مسکین اورمحتاج وضرورت مند ہونگے انہیں ان کی ضرورت کے حساب سے زکوٰۃ ادا کی جائے گئے اورفطرانہ ادا کرنے والے شخص کے لیے جسے ادا کیا گیا ہو ادا کردہ چیز کو خریدنے کی اجازت نہیں۔ حوالہ : فتاویٰ الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالیٰ۔یہ تو ایک مختصر خلاصہ تھا فطرانہ کے متعلق۔ اب دیکھتے ہیں زکوٰۃ کے بارے میں شرعی احکامات۔ سورۃ الشمس 9:91
’’بے شک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کو (رذائل سے) پاک کر لیا (اور اس میں نیکی کی نشوونما کی
سورۃ التوبہ میں کی 9 : 103 میں ہے۔ 
’’آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجئے کہ آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرما دیں اور انہیں (ایمان و مال کی پاکیزگی سے) برکت بخش دیں اور ان کے حق میں دعا فرمائیں، بیشک آپ کی دعا ان کے لئے (باعث) تسکین ہے اوراللہ تعالیٰ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے/ اب دیکھتے ہیں زکوٰۃ وصول کر نے کے حقدار کون ہیں۔
سورہ التوبہْ آیت 60
1) فقراء :  فقیر کی جمع ہے۔اس سے مراد ایسے لوگ ہیں جن کے پاس گزر بسر کے لئے کچھ  نہ ہو۔
(2)مساکین:اس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے جا ئزاخراجات زیا دہ ہو ں اور آمد ن کم ہو
(3)عاملین:جو زکوٰۃ وصول کر نے اس کا حساب وکتاب رکھنے کے ذ مہ دارہوں۔
(4)مؤلفتہ القلوب:  اس سے مراد وہ کا فر ہے جس سے امید ہو کہ وہ مال لے کر مسلمان ہو جا ئے گا یا مسلمانو ں کو ایذا دینے سے رک جائے گا۔
(5)فی الرقاب:گردنیں آزاد کروانے کے لئے،یعنی غلام مسلمان کو آزاد کروانے کے لئے اور مسلمانوں کو دشمن کی قید سے رہائی کے لئے۔
(6)غارمین:مقروض جو اپنا قرض ادا نہیں  کر سکتے ان پر زکوٰۃ خرچ کر کے قرض سے نجات دلانے کے لئے/
(7)فی سبیل اللہ:اس سے مراد جہاد ہے اور جہاد اسلام کی چوٹی ہے جہاد فی سبیل اللہ اورمجاہدین کے جملہ مصارف وضروریات کو پورا کرنے لئے زکوٰۃ کو خرچ کرنا حدیث سے ثابت ہے۔
(8)مسافر: جس کا دوران سفر زادراہ ختم ہو گیا اس کو زکوٰۃ کے مال سے دینا تا کہ منزل مقصود تک پہنچ جا ئے۔
مذکورہ بالا حوالہ جات سے ایک بات یقینی ہو جاتی ہے کہ فطرانہ اور زکوٰۃ ہر گز بھیک نہیں بلکہ یہ سوشل جسٹس سماجی انصاف قائم کرنے کا ایک ٹول ہے۔ اس سے آگے بات ان شاء اللہ تعالیٰ اگلے کالم میں ہو گی۔

مزیدخبریں