کہنے کو بہت کچھ تھا اگر کہنے پہ آتے کہ یہ کیا ہو رہا ہے دنیا کی ارض مقدس پر ، کہتے ہیں اب دنیا بہت ترقی یافتہ ہو گئی ہے، کیا اسی کو ترقی کہتے ہیں، یہ تو ترقی معکوس اور بربریت کا دور لگ رہا ہے جہاں مار دھاڑ سے بھر پور جنگ و جدل ہو رہی ہے اور کوئی بچانے والا نہیں، کوئی بیچ بچائو کرانے والا نہیں بلکہ مارنے والے اسر ا ئیل کا ساتھ دینے والے طاقتور ممالک نظر آ رہے ہیں۔
آج کل تو انسانی حقوق کا بڑا شور ہے ، کیا انسانی حقوق یہی ہیں کہ بقول مغربی دنیا کہ ہم ترقی کی معر اج پر ہیں اور آج ہی کی دنیا میں لوگوں کو بے قصور گھروں سے بے دخل کیا جا رہا ہے ، ان کے گھروں کو آگ لگائی جا رہی ہے، پھر بھی ہم مصر ہیں کہ ہم ترقی یافتہ ہیں۔ شاید وہ یہ بھول رہے ہیں کہ یہ دنوں کا ہیر پھیر ہے ، وقت بدلتے دیر نہیں لگتی، شاید ان کو یہ نہیں پتہ کہ بات نکلے گی تو دور تلک جائے گی اور کسی کا بچنا محال ہو گا۔آج ناصح تماش بین بنے ہوئے ہیں۔ آج فلسطین میں احاطہ مسجد اقصی میں آگ لگی ہوئی ہے بے گناہ فلسطینی بچوں عورتوں کو مارا جا رہا ہے ، ہوائی حملے کئے جا رہے ہیں ، فلسطینی لوگوں کو گھروں سے نکالا جا رہا ہے اور اندھا دھند بمباری کی جا رہی ہے اور کوئی ملک اسرائیل کا ہاتھ نہیں روک رہا ، کیسا تضاد ہے پھر بھی دنیا میں ایک ہی گردان کی جا رہی ہے کہا جا رہا ہے کہ مسلمان دہشت گرد ہیں آج تو اندھے کو بھی نظر آرہا ہے کی تمام دنیا میں صرف مسلمان ہی مارے جا رہے ہیں‘ کبھی ان پر امریکی ڈرون گرائے جا تے ہیں تو کبھی ان کو عراق میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے خود امریکا جو اپنے تئیں خود کو جمہوریت اور انسانی بنیادی حقوق کا چیمپئن قرار دیتا ہے خطرناک ہتھیاروں کی موجودگی کا بہانہ بنا کر عراق پر حملہ آور ہوتا ہے تو کبھی بھیس بدل بدل کر فرقہ پرستی کو ہوا دینے کے لئے شیعہ سنی فسادات کا ڈول ڈالا جاتا ہے اور سقوط فلوجہ میں کئی روز تک قتل عام کیا جاتا ہے۔
قارئین، یہ کہانی انیس سو سٹستھ سے شروع ہوتی ہے جب اسرائیل نے اردن سے مسجد اقصی کے ، شام کے گولان کے علاقے اور صحرائے سینا کے علاقوں پر امریکی مدد سے قبضہ کیا جن میں مصر کو سینائی کا علاقہ واپس کر کے عرب دنیا میں ،ڈیوائڈ اینڈ رول، کی پرانی پالیسی اختیار کی گئی باقی تمام علاقہ پر ابھی تک اسرائیلی تسلط ابھی برقرار ہے۔ اس طرع مصر کو عرب دنیا سے علیحدہ کرنے کی کامیاب سازش کی گئی اور صدر نا صر کی انیس سو ستر میں اچانک موت کے بعد، صدر سادات نے اسرائیل کا دورہ کرکے کیمپ ڈیوڈ کا علیحدہ سمجھوتہ کیا اور اس طرح عرب دنیا کی اصل قوت مصر کو علیحدہ کرنے کی کامیاب کوشش کی اور عرب دنیا کو تقسیم کرنے کی عمل شروع ہو گیا حالانکہ انیس سو تہتر میں نکسن کے دور میں اسرائیل شکست کے قریب تھا کہ امریکی مدد نے اسے عین موقع پر اس کو بچایا۔
اس کے بعد ریگن کے دور میں صابرہ اور شتیلہ کے کیمپوں مبں خوفناک قتل کیا گیا اور کسی نہ کسی شکل میں فلسطینیوں کا قتل، ان کو ان کے علاقوں سے بے دخلی اب تک منظم منصوبہ بندی کے ساتھ جاری ہے اور روز بروز اسرائیل اپنے ناجائز تسلط کوجاری، اور علاقوں پر قبضہ کرتا جارہا ہے اور آج سے ہزاروں سال پہلے کا گریٹر اسرائیل بنانے جا رہا ہے۔
اور آج حالت یہ ہے کہ تمام مغرب اس پر یا تو چپ ہے یا اس کی حمایت کر رہا ہے ہر طرف ارزاں خون مسلم ہے اور برق گرتی ہے تو بچارے مسلمانوں پر، اور ہر طرف مسلمانوں کو ہی دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے ۔
اس کو پنجابی میں کہتے ہیں چور نالے چتر۔
لیکن تاریخ کا یہ سبق بھی ہے کہ ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات اور ڈارون کا یہ فلسفہ صحیح ہے کہ صرف طاقتور ہی زندہ باقی بچتا ہے ۔حیف، اس کے لئے مسلم اقوام نے چونکہ اپنے آپ کو تیار نہیں کیا، اس لئے تقدیر کے قاضی کے فتویٰ کے عین مطابق جس کے نتائج آج بھگت رہے ہیں اور دنیا میں بے کس نظر آ رہے ہیں،بلکہ ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں اور امام خمینی کے تاریخی الفاظ یاد آ رہے ہیںکہ، ہم مسلمان تو ایک دوسرے سے اس لئے لڑ رہے ہیں کہ کوئی بازو اوپر کرکے اور کوئی بازو کھول کر کیوں نماز پڑتا ہے جبکہ دشمن تو ہمارے بازو ہی ہمارے جسم سے قلم کرنے جا رہا ہے جیسے ببانگ دہل کہہ رہا ہو…؎
ہم چھین لیں گے تم سے یہ شان بے نیازی
تم مانگتے پھرو گے اپنا غرور ہم سے
٭…٭…٭
آج مغرب کا ضمیر کہاں سویا ہوا ہے
May 19, 2021