غزہ میں اسرائیلی بربریت جاری ہے۔ اب تک 200 سے زائد فلسطینی شہید اور متعدد افراد زخمی ہوئے۔ پاکستان میں جمعہ کے روز فلسطین کے ساتھ اظہار یک جہتی کے طور پر منایا جائے گا۔ فلسطین پر وقفے وقفے سے بمباری جاری ہے۔ اسرائیلی جارحیت رکوانے اور فلسطینیوں کو ان کا حق خودارادیت دلانے کے لیے دنیا بھر میں مظاہرے اور ریلیاں نکالی گئیں۔ ایک فلسطین کے بچے کی ویڈیو نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اسرائیل کی یہ جارحیت پہلی بار نہیں ہوئی۔ قارئین! 1983ء میں فیض احمد فیض کا انٹرویو کیا گیا۔ اس انٹرویو میں فیض صاحب سے لبنان پر اسرائیلی جارحیت کے حوالے سے گفتگو کی گئی۔ ان دنوں فیض صاحب بیروت میں تھے۔ فیض صاحب کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے لبنان میں اپنی فوجیں اتار دیں اور اس کے بعد وہ ہر روز مسلسل دو تین گھنٹے کے بعد کبھی صبح کبھی شام اسرائیل کی طرف سے ہوائی حملے ہوتے رہے۔ بمباری ہوتی رہی اور شہر تباہ ہوتا رہا۔ جنوبی لبنان میں جہاں فلسطینیوں کے کیمپ ہیں، وہاں کچھ دیہات ہیں۔ اسرائیلیوں کو ان دیہات میں داخل ہونے کی ہمت نہیں ہوئی۔ انھوں نے ان کیمپوں اور دیہات کا چاروں طرف سے محاصرہ کر کے ان پر مسلسل بمباری کی جس کا مقصد یہ تھا کہ وہاں پر مقیم لوگ بھاگ جائیں یا مر جائیں یا بالکل وہاں پر کوئی نہ رہے۔ فلسطینیوں کی طرف سے مقابلہ ہوتا رہا۔ شام نے تو تیسرے دن ہی فائر بندی کر لی تھی۔ فلسطینیوں کا حوصلہ اور جرأت قابل داد تھی۔ ایمبولینس گاڑیاں، ہسپتال، سکول مسلسل اسرائیلی بمباری کی زد میں رہے۔ فلسطینیوں کے ثقافتی اور فلاحی مراکز بھی اس وحشیانہ بمباری سے متاثر ہوئے۔ جہاں فلسطینی قیادت کے لوگ تھے، خاص طور پر یاسر عرفات ایک گلی سے دوسری گلی، ایک مکان سے دوسرے مکان تک۔ بمباری ان کا تعاقب کرتی رہی۔ (اسی طرح گزشتہ ہفتے بھی اسرائیل نے فلسطین میں ایسی عمارت کو تباہ کیا جس میں ’’الجزیرہ‘‘ اور دیگر میڈیا کے دفاتر تھے) فیض صاحب کا کہنا تھا کہ اس دوران میں فلسطینیوں کے حوصلے بہت بلند تھے۔ کھانے پینے کی اشیاء ملتی رہیں۔ دو ہفتے بعد فلپ حبیب اور دیگر تصفیہ کروانے والے وہاں پہنچے۔ فلسطینیوں نے کہا آپ شہر خالی کر دیں اور شرط لگائی کہ پہلے ہتھیار ڈال دیں اور اس کے بعد انہیں وہاں سے باہر نکلنے کا پروانہ راہداری دے دیا جائے گا۔ یاسر عرفات نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا۔ ایک ہفتے تک یہ معاملہ چلتا رہا پھر مجھے کسی نہ کسی طرح وہاں سے نکلنے کا موقع مل گیا تھا۔ بیروت میں "LOTUS" کا دفتر تھا۔ یاسر عرفات اور فیض صاحب اس رسالے کے ایڈیٹر تھے۔ فیض صاحب کا کہنا تھا کہ ہمارے دفتر کا تو تیسرے دن ہی قصہ تمام ہو گیا تھا اور میں ایک دن پہلے وہاں سے کہیں اور منتقل ہو گیا تھا۔ فیض صاحب نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اس سارے عرصے میں مسلم ممالک کا کوئی کردار نہیں رہا۔ انھوں نے اس سارے عرصے میں قرارداد پیش کرنا گوارا نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلیوں کے ساتھ یہ تیسرا یا چوتھا معرکہ تھا۔ پہلی لڑائی 1948ء میں ہوئی جب اسرائیل بنا۔ دوسری لڑائی 1967ء میں ہوئی۔ وہ تقریباََ سات دن چلی۔ پھر 1973ء میں لڑائی ہوئی۔ یہ سب جنگیں فوجیوں اور حکومتوں کے ساتھ تھیں۔ موجودہ لڑائی صرف فلسطینی رضاکاروں نے لڑی، جن کے پاس نہ حکومت، نہ پیسہ نہ جدید ترین اسلحہ لیکن اس کے باوجود گزشتہ تین جنگوں میں اسرائیلیوں کا اتنا جانی نقصان نہیں ہوا جتنا موجودہ جنگ کے تین ہفتوں میں ہوا۔
فیض صاحب کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی بربریت نے نازیوں کو بھی مات کر دیا۔ عوام کی طرف سے دنیا بھر میں مظاہرے ہوئے اور لوگوں نے جو کچھ ان سے ہو سکتا تھا، وہ کچھ کیا۔ فلسطینیوں کا عزم، ان کی شجاعت اور حوصلہ بلند رہا۔ فیض صاحب نے کہا کہ جس گھر میں ہم تھے، اس کے سامنے فلسطین کے مشہور شاعر معین بسیو رہتے تھے۔ میں دو تین ہفتے ان کے ساتھ رہا۔ ان کی چودہ پندرہ برس کی بچی اور ساتھ ہمسایوں کی تیرہ چودہ برس کی بچیاں سب نرسیں بن کر ہسپتال چلی گئیں۔ چودہ پندرہ برس سے زیادہ عمر کے بچے محاذوں پر چلے گئے تھے۔ فلسطینی طالب علم جنگ میں حصہ لینے کے لیے وہاں پہنچ گئے تھے۔ پیرس سے محمود درویش بھی وہاں پہنچ گئے۔ یہ 1983ء کی باتیں تھیں۔ آ ج بھی صورت حال مختلف نہیں۔ اسرائیلی بربریت جاری ہے۔