دنیا میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 42000 چار ہراز دو سو مذاہب موجو دہے جس میں ایک قدیم ترین مذہب یہودیت بھی ہے یہودیوں کی تاریخ جتنی مظلومانہ ہے اتنی ہی بے حسی ، مکر وفریب پر مبنی ہے اپنے پیشواء کی تذلیل کرنا ، محسنوںکے ساتھ دغابازی کرنااور پیچھے سے وار کرنا ان کا وطیرئے خاص رہا ہے یہودیوں کی اس ناپاک عزائم اور شاطرانہ فطرت کی وجہ سے ذلالت ان پر مسلط رہی، یہ تاریخ کی سب سے تباہ حال رسوا قوم رہی ہے اس وقت پوری دنیا میں یہودیوں کی تعداد 14707400 ’’ایک کڑوڑ سینتالیس لاکھ سات ہزار چار سو ‘‘ سے زیادہ نہیں ہے باوجود اس کے دنیا کے تمام بڑے فیصلے ان کی خواہشات یا پھر اشاروں کے عین مطابق ہوتے ہیں،(یہود نے دنیا کی طاقتور طبقے کو اپنے شازشی شکنجے میں ایسے جکڑا ہوا ہے کہ دنیا کی بڑی سے بڑی قوت یہودیوں کے خواہشوں اور چاہتوںکے برخلاف فیصلے کا اختیار نہیں رکھتے)یہودی دنیا کی واحد قوم ہے کہ ان کے پا س اپنی کوئی زمین نہیں بلکہ استعماری قوتوں بین الاقوامی آقائوں کی مدد سے مشرق وسطیٰ کے قلب ارضِ مقدس انبیاء علیہ السلام کی سرزمین فلسطین پر بزورِ قوت ناجائز قابض ہیں،1947ء میں ایک منصوبے کے تحت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کی تقسیم کا فیصلہ کیا اور عربوں بلخصوص فلسطینوں کے خواہش کے برخلاف یہودی ریاست قائم کرنے کا فارمولا پیش کیا، یہ قضیہ چل ہی رہا تھا کہ محض ایک سال بعد بن گوریان نے اسرائیل کی آزادی کا اعلان کردیا، واضح رہے کہ یہ محض کوئی اتفاق نہیں تھا بلکہ مستقل صہونی ریاست کا قیام یہودیوں کی طویل منصوبہ بندی کانتیجہ تھا کیونکہ 1896ء میں تھیوڈ رو ہرزل کی کتاب ’’دی جیوئش اسٹیٹ‘‘ کی اشاعت کے بعد یہودیوں نے اپنی ریاست کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا شروع کردیا تھا، یہودی ارض مقدس میں داخل ہوتے ہی یہودی ریاست کے لئے تگ ودو شروع کردی تھی اور اس مقصد کے لئے عربوں اور ترکوں کے اختلافات کو چارے کے طور پہ استعمال کیا (یہود خوب جانتے تھے کہ خلافت عثمانیہ صہونی مقصد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے لہذا اس موقع پرست قوم نے اختلافات کو پروان چڑہایا) دوسری طرف اقوام متحدہ کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اپنی جائز نا جائز خواہشوں پرتصدیق کی مہر ثبت کروائی ، نیویارک کے ایک معروف یہودی وکیل ہنری کلین نے اقوام متحدہ کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ یہی وہ حکومت اعلیٰ ہے جس کا تصور یہودی دستاویزات میں پیش کیا گیا ہے‘‘ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہودی ایک مکار اور دغاباز قوم ہے جو اپنے مفادات کے لئے پوری انسانیت کو دائو میںلگا سکتے ہیں ، واضح رہے کہ اسرائیلیوں نے ارض مقدس پر صرف قبضہ نہیں کیا بلکہ ظلم و بربریت کی وحشتناک تاریخ رقم کی ہے، جس دن سے یہودی مشرق وسطی میں داخل ہوئے اور اسرائیل کی بنیاد رکھی اس دن سے مشرق وسطی تخریب کاری،بدعنوانی اور دہشت گردی کی آماجگاہ بن گیا ہے، 1948 ء کے بعد سے صہونیوں ارض مقدس پر جو ظلم و بربریت کا مظاہرہ کیا ہے وہ انسانیت کے ماتھے پر بدنما داغ سے بڑھ کر کچھ نہیں یہود کا مجرمانہ کردار کسی ذی ہوش انسان پر مخفی نہیں سرزمین فلسطین کی عبادت گاہیں ٹوٹے ہوئے سڑکیں، ویران تجارت گاہیں، اجڑی ہوئی بستیاں، ملبوں میں دبے عمارتیںاور آباد قبرستان صہونیوں کی دہشت گردی و درندگی کا واضح نشان ہے، اسرائیل کی خیانت اور دغا بازی کو دیکھتے ہوئے بیشتر مسلمان حکمرانوں نے آج تک اسرائیل کو قبول نہیں کیا اور اگر کسی مسلمان حاکم نے قبول بھی کیا ہوتو عوام کسی صورت قبول کرنے کو تیار نہیں ، الحمداللہ آج بھی عالم اسلام کااجتماعی نظریہ اور سوچ یہ ہے کہ اسرائیل ایک غاصب اور ظالم ریاست ہے اسے ایک ریاست کے طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا ، یہودیوں نے اپنے مقاصدکے حصول کے لئے جہاں ظلم و بربریت کا راستہ اپنایا دوسری جانب نہایت ہی مکاری اور چالاکی سے مسلمان حکمران کے ساتھ اپنے تعلقات ناصرف استوار کئے بلکہ استعماری قوتوں کے ذریعے مسلمان ملکوں سے اپنے اثر و رسوخ کو بڑھایا آج دنیا کے چند ممالک کے علاوہ تمام اسلامی ممالک اسرائیل کو تسلم کرچکے ہے جن ممالک نے اب تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ان میں پاکستان اور سعودی عرب سرفہرست ہیں، جن ممالک نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ان کا موقف واضح ہے کہ اسرائیل کوتسلم کرنا فلسطینوں سے غداری کے مترادف ہے دوسری جانب اسرائیل اپنا وجود منوانے کے لئے سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہے ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے مقصد کی جانب کامیابی سے گامز ن ہے (اسلامی ممالک کے سربراہان کااسرائیل کے حوالے سے نرم گوشہ عالم اسلام کے لئے کافی حد تک تشویش کا باعث ہے) یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسرئیل کے ساتھ کوئی معاہدہ کامیاب بھی ہوسکتا ہے ؟ کیا اسرائیل سے یہ امید کیا جاسکتا ہے کہ وہ عہد وفا کریگا ؟ کیاماضی میں عرب دنیاسے کئے گئے کسی معاہدہ کا پاس رکھا ؟ 1977ء میں پی ایل او نے اسرائیل کو امن کے حوالے سے ایک مکمل معاہدہ پیش کیا مگر اسرائیل اس میں شامل نہیں ہوا، 1977ء ہی کے اواخر میں امریکہ اور روس نے باہم مل کر امن کا ایک مشترکہ منصوبہ پیش کیا جسے پی ایل او نے منظور کرلیا لیکن اسرائیل کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے امریکہ اس منصوبے سے دستبردار ہوگیا، نومبر1978ء یاسر عرفات نے معمولی شرائط و ضوابط پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا عندیا دیا اور ریپلیکن ممبر ـ’’ پال فنڈے‘‘ کو بتایا کہ وہ امن کے معاملے پر امریکہ سے گفتگو کرنا چاہتے ہیںلیکن اسرائیل نے یاسر عرفات کی اس کوشش کونظرانداز کردیا، 1982ء میں سعودی عرب ، عراق، شام اور اردن سب نے مل کر امن کی پیشکش کی لیکن اسرائیل نے حسب روایت ان ممالک کی پیشکش کی طرف التفات نہیں کیا ، 1933ء میں جب تیس ہزار یہودی فلسطین میں داخل ہوئے اور فسادت کا آغاز ہوا تب سے مسلمان حکمران اسرائیل کو صرف مزاکرات کی میز پر بلا ہی رہے ہیں اور اسرائیل ہے کہ ظلم اور بربریت کے ساتھ فلسطین پر قبضہ بڑھا ہی رہا ہے،کیا نام نہاد امن کے متلاشی مسلم حکمران یہ بھول گئے کہ اسرائیل عالم اسلام کے قلب میں گھونپا گیا وہ خنجر ہے جس نے مسلمانوں خاص کرکے عربوںکی تاریخ کو زخموں سے چور کیا ہوا ہے ، پھر اس دغاباز قوم پر اعتماد کیوں؟ اورصہونیوں کی نظر میں مسلمان حکمرانوں کی حیثیت کیا ہے؟ یاد رہے کہ اسرائیل بزور قوت فلسطین پر گھس بیٹھا ہے اسرائیل اپنی جانب سے کسی کو فائدہ نہیں پہنچاتا حتیٰ ے خود یہودیوں کو بھی نہیں، پھر بھلا مسلمانوں کا خیر خواہ کیسے ہوسکتا ہے، یاد رہے یہودیوں کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ وہ کسی صورت کسی معاہدے کی زنجیر میں مقید نہیں ہونا چاہتے اور اگر وقتی فائدے یا مجبوری کے پیش نظر معاہدہ کربھی لیں تو اس کو پورا نہیں کرتے ، کیاصحرائے سینا کا تاریخی واقعہ، بنو قریظہ ، خیبر کا واقعہ اور ماضی قریب و بعید کے سیکڑوں واقعات صدیوں پر محیط تاریخ یہودیوں کی منافقت اور دغابازی کو سمجھنے کے لئے کافی نہیں ؟اسرائیل اقوام متحدہ کا سہارا لیکر فلسطین پر قابض تو ہوگیا لیکن صہونی ریاست کی حدود تعین نہیں کیں اس کے پیچھے صہونیوں کا ناپاک عزائم کارفرماہے جس کے تحت عظیم تر اسرائیل کا بنیاد رکھنا ہے یہ دنیا کی واحد ملک ہے جس کا کوئی حدود تعین نہیں کیا گیا، واضح رہے کہ اس وقت بھی اسرائیل جتنی زمین پر قابض ہے یہ اس حصے سے ایک تہائی سے زیادہ حصہ ہے جس پر اقوام متحدہ نے صہونیوں کو قیام کی اجازت دی تھی، اس پر آشوب حالات میں عالم اسلام کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے اسلامی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدات کی تحفظ کیلئے صہونی شازشوں کو سمجھنے اور اس سے لڑنے کی اشد ضرورت ہے کہی ایسا ناہوکہ امت خواب غفلت میں سوئی رہے اور دشمنوں کے تدبیر کامیابی سے ہمکنار ہوجائے۔