خبر یہ ہے کہ سری لنکا میں معاشی بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین ہوتا جا رہا ہے اور اب باقاعدہ طور پر پٹرول شپمنٹس کی ادائیگی کیلئے ڈالرز نہ ہونے کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے۔ کولمبو کی بندرگاہ پر پیٹرول شپمنٹ 28 مارچ سے موجودہے لیکن سری لنکا کے پاس پیٹرول شپمنٹس کی ادائیگی کیلئے ڈالرز نہیں ہیں۔سری لنکن وزیر کے مطابق رواں ہفتے کے آخر تک پیٹرول دستیاب نہیں ہو گا۔ پیٹرول کا بہت کم ذخیرہ ہے جو صرف ایمبولینس اور ایمرجنسی جیسی ضروری خدمات کیلئے جاری کیا جا رہا ہے۔ یہ صورت حال دیگر ممالک کیلئے ایک سبق بھی ہے۔ اس حوالے سے پہلے بھی لکھا گیا اور آج دوبارہ لکھنے کی وجہ یہی ہے کہ ہمیں اپنے ملک کو سری لنکا بننے سے بچانا ہے۔ پاکستان لگ بھگ چوبیس کروڑ لوگوں کا ملک ہے اور یہاں خدانخواستہ ایسی صورتحال سے صرف پاکستان کا ہی نقصان نہیں ہو گا بلکہ دنیا کو اس کے منفی اثرات کیلئے تیار رہنا چاہیے۔ اللہ نہ کرے ایسا وقت آئے، اللہ نہ کرے کہ ہمیں ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے لیکن پھر بھی موجودہ حالات کے پیشِ نظر آنے والے وقت میں کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے بچنے کیلئے حکومت وقت کی توجہ اس طرف دلانا ضروری ہے۔ سری لنکا کی معیشت تباہ ہو چکی ہے اور اس کے بدترین حالات ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ان کے حالات بارے روزانہ سن اور پڑھ رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ بنگلہ دیش کو بھی ممکنہ طور پر ایسے ہی مشکل حالات کا سامنا ہے۔ وہاں بھی حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اردگرد مشکلات کو دیکھ کر کسی بھی بڑی مشکل سے بچنے کیلئے بروقت اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ یقیناً ہمارے فیصلہ ساز اردگرد کے حالات سے بھی بخوبی واقف ہوں گے۔ سری لنکا اور بنگلہ دیش کے حالات میں فرق صرف اتنا ہے کہ سری لنکا کے کرپٹ حکمرانوں نے نہ تو ملکی معیشت کو مضبوط کرنے پر کام کیا اور نہ ہی عوام کو مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار کیا جبکہ بنگلہ دیش کی حکومت ناصرف مشکلات کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار نظر آتی ہے بلکہ اپنی عوام کو بھی مستقبل قریب میں مشکلات کا مقابلہ کرنے کیلئے ذہنی طور پر تیار کر رہی ہے۔ سری لنکا میں حکمرانوں کی عیاشیوں اور کرپشن کی وجہ سے آج ان کے عام آدمی کو یہ دن دیکھنا پڑ رہا ہے کہ لوگ پیٹرولیم مصنوعات حاصل کرنے کیلئے قطاروں میں زندگی کی بازی ہار رہے ہیں۔
عالمی طاقتیں دہائیوں کے تجربوں اور مشقت کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ اب دشمن کس زیر کرنے یا پھر مفادات کے راستے میں رکاوٹ بننے اور بات نہ ماننے والے ممالک کے ساتھ ہتھیاروں کی جنگ نہیں کی جائے گی بلکہ اب مخالفین یا دشمنوں کو معاشی جنگ کے ذریعے قابو کیا جائے گا۔ ہتھیاروں کے بجائے معاشی جنگ کے نتیجے تک پہنچنے میں کئی تلخ تجربات نظر آتے ہیں لیکن افغانستان میں امریکی جنگ اور اتحادی فوجوں کی طویل اور صبر آزما مشقت نے اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ عالمی طاقتیں اب اس نتیجے پر پہنچ چکی ہیں کہ جس ملک کو تباہ کرنا ہے اس پر حملے اور بمباری کی بجائے اس کی کرنسی کو تباہ کرو، معیشت کو تباہ کرو تاکہ کوئی مقابلہ کرنے کے قابل ہی نہ رہے۔ سری لنکا کی تباہی سے یہی سبق ملتا ہے۔
معاشی جنگ کے ذریعے ممالک کو تباہ کرنے کا ہدف ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے اداروں کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے۔ قرضوں میں جکڑا جاتا ہے، کسی بھی ملک کے عام آدمی کی زندگی کو مشکل بنایا جاتا ہے، لگژری آئٹمز کی بھرمار ہوتی ہے۔ پیسہ آسائشیں حاصل کرنے پر خرچ ہوتا ہے لیکن درحقیقت ملکی معیشت نیچے بیٹھ رہی ہوتی ہے۔ یوں بغیر کوئی گولی چلائے، بم گرائے مطلوبہ ہدف حاصل ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں کمزور ہوتی معیشت اور روپے کی قدر میں مسلسل کمی خطرناک ہے۔ ان حالات کو سنبھالنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی فوج کو غیر تحریری کردار ادا کرنا ہو گا۔ پاکستان کی فوج نہایت پیشہ ور، بہادر، باصلاحیت اور ملک کی حفاظت کی صلاحیتوں سے مالامال ہے۔ ان حالات میں اسے اپنے تحریری کردار تک محدود رہنے کے بجائے ملکی سلامتی کے پیش نظر آگے آنا چاہیے۔ صرف فوج ہی نہیں بلکہ ریاستی اداروں کو بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ناصرف ذمہ دار بلکہ محب وطن بھی ہے اور سری لنکا کی تباہی سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ وہاں کرپٹ حکمران اپنے مفادات کے تحفظ میں مصروف رہے اور کوئی طاقت سٹیک ہولڈرز کو اکٹھا کرنے میں ناکام رہی جس کا نتیجہ بدترین حالات کی صورت میں سامنے آیا۔ بہت سے لوگ آئندہ چند ہفتوں کی اہمیت پر زور دے رہے ہیں لیکن میرے خیال میں آئندہ دو سال ناصرف مشکل بلکہ نہایت اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ ملک حکومتوں کے تجربات یا حکومت میں تبدیلیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا، ملکی معیشت کو سنبھالنے کیلئے ناصرف مشکل فیصلوں کی ضرورت ہے بلکہ اسٹیبلشمنٹ کو اپنا غیر تحریری کردار بھی ادا کرنا ہو گا۔ پانچ مارچ کو ڈالر ایک سو اٹھہتر روپے کا تھا اور آج یہ ڈبل سینچری پر ناٹ آؤٹ ہے کتنے رنز اور بناتا ہے اور کہاں جا کر ٹھہرتا ہے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ چند سال پہلے تک سری لنکا اور پاکستان کی کرنسی میں بارہ یا چودہ روپے کا فرق تھا اس لئے ہمیں کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے اور پانچ مارچ کے حالات و واقعات کو ضرور سمجھ لینا چاہیے۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اور سیاسی قیادت بلا شک و شبہ محب وطن ہیں لیکن راستے سے بھٹکنے کی گنجائش ہر جگہ موجود ہے ہمیں سب کو بھٹکنے سے روکتے ہوئے ملکی سلامتی کو یقینی بنانا ہے۔
گذشتہ چند ماہ کے دوران ہونے والے واقعات اور اردگرد ہونے والی تباہی ہمیں سبق دے رہی ہے، ہمارے دشمن ڈھکے چھپے نہیں ہیں، دشمن ایک مرتبہ پھر ہمارے امن کو تباہ کرنے کے درپے ہے، ہم کسی کو الزام دے کر ایک طرف نہیں ہو سکتے، ہم نے حالات کا مقابلہ کرنا ہے اور ملک کو موجودہ مشکل صورتحال سے نکالنا ہے۔ کیونکہ یہ حالات ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں۔ جو فیصلے کرنے کی جگہ بیٹھے ہیں ان سے بھی کچھ ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ وہ بھی جانتے ہیں کہ کہاں کہاں غلطیاں ہوئی ہیں اور اصلاح کا راستہ کون سا ہے۔ یہ مت سمجھیں کہ راتوں رات سب کچھ بدل جائے گا، سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، سیاسی سرگرمیاں ختم ہو جائیں گی، دہشت گرد دبک جائیں گے اور حکومت کو ہر طرف سکون نظر آئے گا ایسا ممکن نہیں ہے۔ ملک میں بیک وقت ہر جگہ مختلف واقعات ہوتے رہیں گے اور ان سب مثبت اور منفی سرگرمیوں میں ہی معیشت کو مضبوط بنانے اور استحکام کیلئے کام کرنا ہو گا۔ ان شاء اللہ نہ ہم بنگلہ دیش بنیں گے ناہم سری لنکا بنیں گے۔ یہ سبز ہلالی پرچم سر بلند رہے گا دشمنوں کے منصوبے خاک میں ملیں گے۔
پاکستان زندہ باد۔