فیصل آباد  میں تحریک انصاف کے جلسہ

میاں غفار احمد

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ منحرف اراکین اسمبلی کا ووٹ شمار نہیں ہو گا۔ پی ٹی آئی کا دعوی ہے کہ اس فیصلے سے پنجاب میں میاں حمزہ شہباز کی حکومت کے پاس اکثریت باقی نہیں رہی اور پنجاب میں شدید بحران کی کیفیت پیدا ہو چکی ہے کیونکہ پنجاب میں لیگی اتحاد کی اکثریت اقلیت میں تبدیل ہو چکی ہے۔ سپریم کورٹ میں 2 اور تین کی شرح سے آنے والے اس فیصلے کی اب تشریح ہو گی اور پنجاب میں اس وقت کسی کے پاس بھی اکثریت باقی نہیں رہی۔ اسمبلی میں اقلیت کے پاس حکومت قائم رکھنے کا حق نہیں رہتا۔ یہاں توجہ طلب امر یہ ہے کہ اس سے قبل سابق وزیراعظم نواز شریف اور جہانگیر ترین کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں تاحیات نااہلی کا سامنا ہے لہٰذا حال ہی میں منحرف اراکین اسمبلی پر بھی اس فیصلے کے اطلاق کا امکان ہے اس لئے بھی شاید مزید وضاحت درکار ہو گی کہ منحرف اراکین اسمبلی کا صرف ووٹ ہی شمار نہیں ہو گا بلکہ اب یہ نااہلی کا اطلاق کیسے اور کیوں کر ہو گا۔ 
         فیصل آباد کے مشہور دھوبی گھاٹ گراونڈ میں تحریک انصاف کے جلسے کے حوالے سے جو مجھے معلومات ملی ہیں ان کے مطابق 108 کنال پر مشتمل یہ جلسہ گاہ اور اردگرد کی تمام سڑکیں مکمل طورپر شرکاء سے بھری پڑی تھیں۔ مجھے فیصل آباد کے دوستوں نے بتایا کہ انہوں نے 40 سال میں کبھی اتنا بڑا کراوڈ فیصل آباد میں نہیں دیکھا۔ صورتحال اس بات کی نشاندہی کر رہی ہے کہ عمران خان کا بیانیہ تیزی سے مقبول ہو رہا ہے بطور وزیراعظم عمران خان کے چہرے پر جو پریشانی چھائی رہتی تھی اب حیران کن طور پر بہت زیادہ اعتماد میں بدل چکی ہے یہ بات بھی مجھے فیصل آباد کے دوستوں نے بتائی کہ اس کا چہرہ بہت زیادہ تر و تازہ تھا جو کہ اقتدار کے دوران نہیں تھا۔ ادھر کوہاٹ سے ہمارے صحافی دوستوں نے گزشتہ سے پیوستہ شب جو میں نے معلومات لیں ان کے مطابق وہاں بھی کوہاٹ کی ہسٹری کا بہت بڑا اجتماع تھا اور اس میں خواتین کی بڑی تعداد میں شرکت نے بھی اہالیان کوہاٹ کو از خود حیرت میں ڈال دیا ہے۔ 
عمران خان کے تیزی سے مقبول ہوتے ہوئے بیانیے کے مقابلے میں حکومتی بیانیہ مکمل طور پر بے بس نظر آ رہا ہے۔ لیگی حکومت کا تمام تر تجربہ بھی ڈالر کی اڑان کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو رہا اور اوپر سے کابینہ کے انتخاب نے بھی بہت سے سوال کھڑے کر دئیے جبکہ پنجاب میں تو حلف اٹھانے کے بعد میاں حمزہ شہباز ابھی تک کابینہ ہی فائنل نہیں کر سکے تھے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے نیا کٹا کھول دیا۔ بات تیزی سے الیکشن کی طرف جارہی ہے اور اب بذریعہ الیکشن پی ٹی آئی کو آوٹ کئے جانے پر اتحادی توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ جو باتیں دبے لفظوں میں کی جاری تھیں وہ اب کھلے عام کی جارہی ہیں کہ اسی سال الیکشن ہوں گے مگر عمران خان وزیراعظم نہیں ہوں گے۔ ان بھولے بادشاہوں کو 77 کی تحریک یاد نہیں کیا؟  کرپشن سے نجات کے نعرے کو عوام نے مکمل طور پر اَون کر لیا ہے لہٰذا عوام کے دلوں سے اسے نکالنا ناممکن ہو چکا ہے۔ ایک طرف تو Absolutely not دو ٹوک الفاظ میں کیا گیا تو دوسری طرف میاں شہباز شریف خاموشی ہی اختیار کر لیتے مگر انہیں یہ کہنے پر مجبور کیا گیا کہ آپ کہیں Absolutely Yes اور پھر وزیراعظم کو ایک سوال کے جواب میں یہ بھی کہنا پڑا۔ جو کہ ان سے امریکی صدر جوبائیڈن کے حوالے سے کہا گیا کہ جوبائیڈن نے آپ کو فون کیا ہے جس کے جواب میں جناب وزیراعظم شہباز شریف گویا ہوئے۔ جو بائیڈن فون کریں تو ان کی مہربانی اور نہ کریں تو بھی مہربانی۔ اب ہم اس نہج پر پہنچ چکے ہیں۔ جناب وزیراعظم نے درست کہا تھا۔ 
Beggers are not Chosers
          سیاستدان خواہ کسی بھی جماعت کا ہو وہ حالات سے سبق نہیں سیکھتا۔ گزشتہ روز ملتان سے پی ٹی آئی میں ثاقب  نامی نوجوان کو یہ ظاہر کر کے شامل کرایا گیا ہے کہ وہ کوئی بہت اہم وکٹ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انہیں ملتان میں کوئی نہیں جانتا۔ یہ نوجوان ثاقب مہے کئی ماہ تک لیگی رہنما سید جاوید علی شاہ کی خدمت میں حاضر رہے کہ مسلم لیگ میں شامل ہو جائیں اور جلال پور پیروالا میں میاں حمزہ شہباز کے جلسے میں سٹیج پر موجود رہے۔ جب وہاں بات نہ بنی کہ مہے خاندان کے حقیقی بڑے پہلے ہی سے مسلم لیگ میں ہیں تو انہیں پی ٹی آئی میں کوئی توپ بنا کر لانچ کردیا گیا۔ ثاقب مہے کی کوئی سیاسی پہچان ہے ہی نہیں  یہ نوجوان خالد مہے کا بیٹا اور ملک ظہور مہے کا داماد ہے۔ ملک ظہور مہے بارے بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی تعلیم بھی مخدوم سجاد حسین قریشی کے ڈیرے پر رہ کر حاصل کی تھی۔ پی ٹی آئی نے ٹکٹوں کی غلط تقسیم کی وجہ سے 2018 کے الیکشن میں صرف جنوبی پنجاب سے 10 سے زائد قومی اسمبلی کی نشستیں ہار دی تھیں اور اگر اس مرتبہ بھی  ذاتی پسند و ناپسند کے حصار سے پی ٹی آئی کی کور ٹیم نے باہر نکل کر میرٹ پر ٹکٹیں تقسیم نہ کیں تو یہی سونامی بیک گیئر بھی مار سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن