ایک ماہ کے دوران  مسلسل تین  خودکش دھماکے

تحریر: سید شعیب شاہ رم
shoaib.shahram@yahoo.com
پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی اور روشنیوں کا شہر کراچی جو دنیا کا ساتواں بڑا شہر بھی ہے۔ کراچی کو منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں ہر رنگ، نسل اور قومیت کے لوگ آباد ہیں۔ ایک دور تھا جب کراچی کو دیکھنے لوگ دور دور سے آیا کرتے تھے، لوگوں کی گہما گہمی اور زندہ دلی سے دنیا متاثر تھی، یہی وجہ تھی کہ اس کا نام روشنیوں کا شہر رکھا کیونکہ یہاں ہر وقت دن کا سمائ￿  رہتا تھا۔ پھر کراچی کو کسی کی نظر لگ گئی اور 90 کی دیہائی میں یہاں بہت خون خرابہ  ہوا، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ سے لاکھوں معصوم لوگوں کی جانیں گئیں۔ کچھ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ دن دیہاڑے مجرمان بلا خوف و خطر کسی کی جان لے کر چلے جایا کرتے تھے۔ لوگوں گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے تھے، شہری گھر سے باہر نکلتے ہوئے خوف محسوس کرتے تھے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی اور دیگر شہری کراچی کو یر محفوظ سمجھنے لگے اور یہاں آنے سے اجتناب کرتے تھے۔ پھر بھلا ہو پاکستان کی مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کہ جنہوں نے یہاں امن قائم کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد بلآخر کراچی میں امن قائم ہوا۔ لوگوں میں خوف کی فضا کم ہوئی تاجر اطمینان کے ساتھ اپنے کاروبار میں مصروف ہوئے، ان سے کوئی زبردستی بھتہ مانگنے والے کے خلاف سخت کارروائی ہوتی۔ دنیا کے سامنے کراچی کا امیج بہتر ہونا شروع ہوتا تو اچانک پھر اس طرح کے واقعات نے سر اٹھانا شروع کردیا۔ شہری جو اب سکون کی زندگی گزار رہے تھے اسے ایک بار پھر برباد کرنے کی کوشش کی گئی۔ پاکستان کے دشمن کراچی کو کیسے پھلتا پھولتا دیکھ سکتے ہیں۔ گزشتہ ایک ماہ میں کراچی میں مسلسل تین دہشت گرد خودکش دھماکے ہوئے۔ پہلا خود کش دھماکہ کراچی یونیورسٹی کے اندر برادر ملک چین کے اساتذہ پر کیا گیا جس میں پاکستان میں خدمات انجام دینے والے چینی باشندوں کی قیمتی جانیں گئی جو یہاں کے لوگوں کو ہی اپنی کامیابی کے ہنر سکھانے آئے تھے۔ اس کے بعد کراچی کے علاقے صدر میں کوسٹ گارڈز کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا، اور اب ایم اے جناح روڈ پر کھارادر کے مصروف علاقے میں پولیس وین کو ٹارگیٹ کیا گیا۔ اس حادثہ میں ایک خاتون جاں بحق اور 11 افراد زخمی ہوئے۔ اس واقع نے شہر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ لوگ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے سوال اٹھانے لگے کہ وہ ان مجرموں کا تعین کریں جو کراچی کا امن تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ اس دوران ایک دلخراش ویڈیو سامنے آئی جس میں وہ بدقسمت خاتون تھی جس نے دہشت گردی کیس  واقع   میں جام شہادت نوش کیا۔ سب سے تکلیف دہ بات یہ تھی کہ اس مظلوم خاتون کے ساتھ اس کا معصوم بچہ بھی تھا جو اپنی بے جان ماں کو صدائیں دے رہا تھا کہ ماں اٹھو! جلدی اٹھو  ماں! جلدی چلو یہاں سے! اس معصوم کو کیا معلوم کہ اس کی ماں اب کبھی نہ اٹھنے کیلئے سو گئی ہے۔ اس کے سر سے ماں کا سایہ ہی اٹھ گیا ہے۔ یہ ویڈیو دل کو خنجر کے وار کی طرح زخمی کر گئی۔ جس نے بھی یہ ویڈیو دیکھی اشکبار ہوگیا۔ خدا غارت کرے ان دہشت گردوں کو جو پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں اور معصوم شہریوں کو اپنا نشانہ بناتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے تحقیقات جاری ہیں، ابتدائی رپورٹس کے مطابق دو حملوں میں مماثلت ہے یعنی دو حملے ایک ہی گروپ نے کئے ہیں۔جبکہ کراچی یونیورسٹی حملہ کی ذمہ داری ایک گروپ کر چکا ہے۔ بحر حال قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیت پر کوئی شک نہیں وہ مجرمان تک ضرور پہنچیں گے اور دعا ہے کہ وہ جلد سے جلد ان مجرمان کا سراغ لگا لیں جنہوں نے اس معصوم بچے کو جو خود بھی اس حملے میں زخمی ہوا کو ماں کی نعمت سے محروم کردیا۔ لیکن یہ بھی سوچنا ضروری ہے کہ کیا وجہ ہے کہ اچانک یہ واقعات جو کافی عرصے سے کراچی سے ختم ہوگئے تھے پھر تواتر کے ساتھ شروع ہوگئے۔ جلد ان دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
لیکن اس سب کے باوجود کراچی کے لوگ بڑے دل کے ہیں، جو لوگ بڑے بڑے زخم کھا کر بھی اپنی محبت اور دریا دلی سے پیچھے نہیں ہٹتے۔ یہی سب اس وقت دیکھنے کو ملا جب پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اپنا پہلا سرکاری دورہ کامیابی سے مکمل کرکے کراچی پہنچے تو لوگوں نے ان کا بہت پرتپاک استقبال کیا، عوام کی ایک بڑی تعداد انہیں ویلکم کرنے موجود تھی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کراچی چاہے کتنی تکالیف برداشت کرلے لیکن وہ اپنی ذمہ داری، مہمان نوازی، خلوص اور حب الوطنی سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ کراچی کے لوگ، تاجر شہر میں امن کے خواہاں ہیں۔ دہشتگردی سے تنگ آ کے ہیں اور اب سکوں سے رہنا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت کو کوئی ٹھوس اقدام اٹھانا پڑے گا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فودی حرکت میں آکر دہشتگردوں کے گرد گہرا تنگ کرتے ہوئے انہیں نیست و نعبود کرنا ہوگا۔ تاکہ کراچی اور بلآخر پاکستان کا امن بحال ہو اور پاکستان معاشی استحکام کی جانب گامذن ہو سکے۔ کیونکہ کراچی میں خوشحالی ہے تو پاکستان خوشحال ہے۔ کراچی بدامنی کا شکار رہا تو پاکستان معاشی بحران کا سامنا کر تا رہے گا۔

ای پیپر دی نیشن

پاکستان : منزل کہاں ہے ؟

وطن عزیز میں یہاں جھوٹ منافقت، دھوکہ بازی، قتل، ڈاکے، منشیات کے دھندے، ذخیرہ اندوزی، بد عنوانی، ملاوٹ، رشوت، عام ہے۔ مہنگائی ...