جسٹس فدا محمد خاں، یادیں اور باتیں

May 19, 2022

 جسٹس فدا محمد خان  نے  بشمول پاک فضائیہ کی  ملازمت کے  تقریباً 61 سال تک  سرکاری خدمات انجام دیں۔ نیک نامی کمائی ، قوم میں  عزث اور احترام کا  مقام پایا،  29 نومبر 2019 میں فانی دنیا سے رخصت ہوئے۔ 7 دسمبر 2019 کو وفاقی شرعی عدالت  کے چیف جسٹس جناب محمد نور مسکانزئی کی سر براہی میں  فل کورٹ تعزیتی ریفرنس ہوا ، جس میں جسٹس فدا محمد خان کے اہل خانہ سمیت سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی اور  دیگر معتبر شخصیات نے شرکتِ کی …ایک بالغ فرد کتنی ہی کم عمر جئے ، اس کی زندگی میں مگر  بے شمار علماء دین ، سالکین کرام، علمی اور ادبی شخصیات ، ماہرین اقتصادیات ، سیاستدان ، نامور مقررین ، شہرت یافتہ محقیقین اور ثقافتی خطیبوں  سے ملاقات ہوتی ہے ایسی ہی خود گیر اور خود شناس شخصیت جو مقام فکر( پیمائش زمان و مکاں) اور مقام ذکر ( سبحان ربی الاعلیٰ) سے کلی طور پر آگاہ   ڈاکٹر  علامہ جسٹس فدا محمد خان  ( گروپ کیپٹن ریٹائرڈ) کی تھی۔  ان سے  اتفاقیہ ملاقات اور پر تاثیر   گفتگو نے میرے قلب و نگاہ کو  بدل کر رکھ دیا۔ مجھے یہ کہنے میں ذرا باک نہیں کہ مجھے  عسکری پیشہ  کے آغاز میں ہی اپنے ایک سینئر افسر نے اتفاقیہ ملاقات میں   زندگی گزارنے کا طریقہ، سلیقہ اور قرینہ سکھا دیا 1976 نومبر/ دسمبر کا واقعہ ہے ۔ میں اپنی یونٹ کے سپورٹس پیریڈ سے فارغ ہو کر واپس چک لالہ آفیسرز میس میں پہنچا تو سرسبز لان میں  ساتھی  آفیسرزکے پاس جا بیٹھا۔ خوش گپیوں کا دور جاری تھا کہ سینئر ویٹر ( نذر) نے آ کر مجھے بتایا کہ ایک اسکاڈرن لیڈر جو پشاور سے آئے ہیں ان کو میس سیکرٹری کی ہدایت پر  آپ کے کمرے میں ٹھہرایا ہے۔ اس اطلاع پر میرا پہلا رد عمل خوشکن نہ تھا کہ اتنے سینئیر افسر کی کمرے میں موجودگی  میں  پتہ نہیں کیسے وقت گزرنے گا۔میں جب   کمرے میں پہنچا ، دیکھا کہ ایک دراز قد دبلی پتلی جسامت والا باریش فرد آرام کرسی پہ بیٹھا مطالعہ میں مصروف ھے۔ آپ کیسے ہیں ۔ میرا نام اسکاڈرن لیڈر فدا محمد خان ہے ، ڈائریکٹوریٹ آف مذہبی امور و موٹیویشن پشاور میں تعینات ہوںمزید بات کرنے پر پتہ چلا کہ سر فدا محمد خان اگلے دن اسلام آباد میں وفاقی وزارت حج و اوقاف اور مذہبی امور میں سیمینار میں شرکت کے لیے تشریف لائے ہیں۔  علم و عمل کی اہمیت اور  افادیت پر انہوں نے بتایا  کہ کتب بینی ، ( مطالعہ)  انسانی عادات میں احکام الہیہ  کی  عین پابندی ھے۔ پھر فرمایا رسول اللہ ؐکو اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلی وحی ( حکم) " اقرا باسم ربک الذی خلق" نازل فرمائی ، جس سے پڑھنے پڑھانے ( حصول علم) کی اہمیت واضح ہوتی ۔جناب فدا محمد خان   باتیں کر رہے  تھے تو واقعتا   اچھا لگ رہا تھا کہ:- " رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے"میں ان کی باتوں کے ایک ایک لفظ کو غور سے سن کر دل پہ نقش کرتا جا رہا تھا۔ لیڈرشپ کے موضوع پر بات کرتے فرمانے لگے " ایک۔مسلمان آفیسر دینی اعتبار سے جہاں غلطی دیکھتا ہے ،  وہ خاموشی سے نہیں سنتا بلکہ فورآ اصلاح کرتا ھے ۔ اسلام میں مسائل کے حل کیلئے بہت سے آپشنز ہیں سوائے مصلحت کے۔ اگر وہ ثقافتی روایات اور اقدار کو فضول اور غیر  تعمیری سمجھتا ھے تو ان کے نقصانات گنوا کر  لوگوں کا رویہ بدلاتا ھے۔ اگر انتظامی معاملات میں کہیں کمی یا جھول دیکھتا ہے تو فوراً چارج سنبھال کر  اسے ٹھیک کرتا ہے اور موثر لیڈرشپ کی مثال قائم کرتا ہے۔آفیسرز اپنے علم و عمل کے اعتبار اپنے ماتحتوں سے برتر جانے جاتے ہیں۔ انہیں مختلف کورسز کروا کر ان کی شخصیت  کا قیادتی پہلو مزید سنوارا اور نکھارا جاتا ہے۔۔ یونٹ کے افراد میں اگر کہیں ان کی کردار سازی میں کمی پائی جاتی ہے تو وہ کمانڈرز کی ناکامی شمار ہوتی ھے۔ ماتحت تو وہی کرتے ہیں جو انہیں کرنے کا حکم ملتا ھے ۔ ان احکامات کی نفاست اور وضاحت آفیسرز زمانہ امن میں  جوانوں کو سکھاتے اور سمجھاتے ہیں۔ اگلے روز جب اسکاڈرن لیڈر ڈاکٹر فدا محمد خان صاحب مجھ سے الگ ہو رہے تھے تو مجھے اچھا نہیں لگ رہا تھا۔  کچھ دنوں بعد ہماری یونٹ کو  کراچی قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار پر" گارڈز آف آنر " پیش کرنے کے لیے جانا پڑا۔  معمول کے مطابق سارا بندوست ہوگیا ، C 130.  پر سوار ہونے سے پہلے مجھے بتایا گیا کہ  چار زاید جوانوں کو  نفری میں شامل کرنا پڑا تھا ، جن کے کھانے کا بندوست، وقت کی کمی کے باعث  نہیں ہو سکا ۔ دوران پرواز جب کھانا تقسیم۔ کیا جانے لگا تو سارجنٹ  انچارج نے پہلے  آفیسرز کو پیک ڈبے پکڑا دئیے جو انہوں نے لے لیے۔ مجھے اسکاڈرن لیڈر فدا محمد خان کا یہ جملہ یاد آگیا کہ" جب انتظامی اعتبار سے کوئی فیصلہ غلط ہوتا دیکھے تو ایک مسلمان لیڈر فورآ اس کی اصلاح کرتا ھے  DOING IS MORE IMPORTANT THAN TELLING,  میں نے سارجنٹ کو اشارے سے بلوایا اور  کہا  آپ کو پتہ ہے کھانا کم ہے تو سب سے پہلے جوانوں میں  کھانا تقسیم کرو،  آفیسرز کو کھانا نہ بھی ملے تو خیر ھے۔ اس طرح کھانا سارے جونیئرز میں تقسیم ہوا۔ آفیسرز نے بھی اپنا  اپنا ڈبہ جوانوں میں تقسیم کروا دیا۔ بعد میں میرے کمانڈر نے مجھے بلا کر کہا " Muneer well done"1982 میں  ہمارا کورس 54 نان جی ڈی  پورے سات سال کے بعد  اسکاڈرن لیڈر بنا دیا گیا تھا۔ میری تعیناتی  ایڈجوٹنٹ ائیر ہیڈکوارٹر ز پشاور ہو گئی۔ ڈاکٹر فدا محمد خان صاحب ونگ کمانڈر تھے اور وہیں ڈائریکٹوریٹ آف مذہبی امور ہی میں تھے میں ان کے پاس گاہے گاہے جاتا سلام عقیدت پیش کرتا دو چار باتیں ان سے علم و عقل کی سنتا اور  واپس اپنے دفتر اجاتا۔ دین اسلام کی تبلیغ اور موضوع گفتگو پر  دھیمے مگر  ، پر تاثیر لہجے   اور موثر دلیل استعمال کر کے سامع کو قائل کرنے میں ڈاکٹر فدا محمد خان صاحب کو  ملکہ حاصل تھا۔ جس تقریب میں جاتے لوگ ان کے گرد حلقہ بنا کر بیٹھ جاتے ،اور  نور ایمان سے اپنے دلوں کو منور کرتے۔  پی اے ایف بڈا بیر پشاور میں  علامہ  فدا محمد خان صاحب نماز جمعہ تقریر بھی خود فرماتے اور بھی خود دیتے تھے۔ تقریر کرتے اگر موضوع  گفتگو پر ضمنی واقعات بیان کرتے اور دلائل دیتے ، کتنا ہی وقت کیوں نہ لیتے مگر تقریر کے عنوان پر لوٹتیتو پھر اسی جملہ سے شروع کرتے جس پر سے چھوڑ کر ضمنی واقعات کا ذکر چھیڑتے تھے۔ گفتگو کے اس طرز تسلسل سے نہ صرف مسلہ سمجھ آ جاتا بلکہ تفصیلات بھی دل میں اتر جاتی تھیں۔ڈاکٹر، علامہ گروپ کیپٹن فدا محمد خان  کی علمی وسعتوں،  عملی کارکردگی کی شہرت و ناموری اور پیشہ ورانہ تحقیقی کارہائے نمایاں کے  اعتراف میں ان کی خدمات  پاکستان کی وفاقی  شریعت کورٹ میں بحثیت جسٹس سپرد کر دی گئیں۔ جہاں پر انہوں نے تقریباً 31 سال تک پاکستان کے قوانینِ کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی خدمات انجام دیں۔ وہ پاکستان کی سپریم کورٹ میں بھی عالم جج کے کام  کرتے رہے۔ 

مزیدخبریں