لاہور(احسن صدیق)چیف ایگزیکٹیوآفیسر اینڈ وی پی کمرشل ، اینگرو پاورجن قادرپور لمیٹیڈشہاب قادر نے کہا ہے کہ بجلی کی پیداوار کے لیے درآمدی ایندھن پر انحصار کی وجہ سے پاکستان خطے میں گھریلو اور صنعتی استعمال کی سب سے مہنگی بجلی کے حامل ممالک میں شامل ہے۔ اگر ہم اپنے مقامی وسائل کو بروئے کار لائیں جیسا کہ کم حرارت والی گیس یا تھر کا کوئلہ تو ہمیں بجلی کی پیداوار کے لیے ایندھن درآمد کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ مقامی وسائل کا مکمل استعمال نہ صرف پاکستان کی انرجی سکیورٹی کو یقینی بنائے گا بلکہ قوم کے لیے بجلی کی قیمت کو بھی قابل برداشت حد تک لانے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے نوائے وقت کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں توانائی کے منظرنامے کا زیادہ تر انحصار درآمدی ایندھن پر ہوتا ہے۔ کرونا کی عالمی وباءمیں کماڈٹی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں اور یہ رجحان 2022ءمیں بھی جاری رہنے کا امکان ہے۔ اس لیے درآمدی ایندھن پر انحصار کم کرنا ضروری ہے اور اس لحاظ سے ای پی کیو ایل کا مقامی فیول سے چلنے والا پلانٹ بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اگر ہم مقامی کم حرارت والی گیس یا تھر کے کوئلے کو بروئے کار لاتے ہیں تو پاور سیکٹر کو درآمدی ایندھن کی ضرورت نہیں ہوگی۔ مقامی ایندھن جیسے کہ ضائع ہونے والی گیس، شعلے کی شکل میں جلنے والی گیس اور کم حرارت والی گیس کو نجی اور سرکاری شعبہ طویل عرصہ سے استعمال کررہا ہے۔ تاہم نجی شعبہ ان وسائل کے بھرپور استعمال میں پبلک سیکٹر سے زیادہ کامیاب رہا اور اس لحاظ سے ای پی کیو ایل پاکستان کے توانائی کے منصوبوں میں بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ پرمیٹ گیس کا استعمال جو کہ پہلے شعلے کی شکل میں جلا کرضائع کردی جاتی تھی اب نہ صرف سماجی فوائد مہیا کررہی ہے بلکہ حکومت اور مقامی کمپنیوں کی آمدنی کا بھی ذریعہ ہے۔ اینگروپاورجن قادرپور لمیٹیڈ (ای پی کیو ایل) کا آغازایک منفرد آئیڈیا سے ہوا جو ضائع ہونے والی گیس کو استعمال کرنے پرمبنی ہے۔ اس گیس کا کوئی متبادل استعمال نہیں تھا۔ ہم ہمیشہ نوعیت کے لحاظ سے منفرد پراجیکٹس کا انتخاب کرتے ہیں اور ہماری حکمت عملی ان وسائل کو بروئے کار لانا ہے جو عموماَغیرضروری سمجھے جاتے ہیں۔ تھر کے کوئلے کو استعمال میں لانا بھی اس حکمت عملی کی ایک مثال ہے۔ اینگروانرجی کی بنیاد کماڈٹی کی قدر بڑھانے پراستوار ہے۔ انہوں نے کہاکہ اینگروپاورجن قادرپور لمیٹیڈ (ای پی کیو ایل) کا آغازایک منفرد آئیڈیا سے ہوا جو ضائع ہونے والی گیس کو استعمال کرنے پرمبنی ہے۔ اس گیس کا کوئی متبادل استعمال نہیں تھا۔ ہم ہمیشہ نوعیت کے لحاظ سے منفرد پراجیکٹس کا انتخاب کرتے ہیں اور ہماری حکمت عملی ان وسائل کو بروئے کار لانا ہوتا ہے جو عموماَغیرضروری سمجھے جاتے ہیں۔ تھر کے کوئلے کو استعمال میں لانا بھی اس حکمت عملی کی ایک مثال ہے۔ اینگروانرجی کی بنیاد کماڈٹی کی قدر بڑھانے پراستوار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ای پی کیو ایل ایک پبلک لسٹڈ کمپنی ہے جس کا 225میگاواٹ کا پاور پلانٹ مقامی پرمیٹ گیس (سلفر کی زائد مقدار اور کم حرارت والی گیس) پر چلتا ہے جو او جی ڈی سی ایل کی قادرپور فیلڈ سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ پراجیکٹ واحد ماحول دوست پاور پلانٹ ہے جس میں بجلی کی پیداوار کے دوران کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج نہیں ہوتی۔ یہ پراجیکٹ بہت سے معاشی فوائد کا بھی ذریعہ ہے جن میں زرمبادلہ کی بچت اور کماڈٹی کا زیادہ سے زیادہ استعمال شامل ہے جو پہلے مکمل طور پر فاضل تھی۔ ای کیو پی ایل پلانٹ گزشتہ 12سال کے دوران صارفین اور نیشنل الیکٹریسٹی باسکٹ میں تقریباً 16,127 ارب یونٹس کی بجلی مہیا کرچکا ہے جس کی زرمبادلہ میں بچت کے لحاظ سے ایک ارب ڈالر بنتی ہے یہ بجلی ایندھن مہیا کرنے والوں کے لیے 80 ارب روپے سے زائد کی آمدنی جبکہ الیکٹریسٹی پول پرائس کو 60ارب روپے سے زائد کا فائدہ پہنچانے کا ذریعہ بن چکی ہے۔ پاکستان میں کم حرارت والی گیس کے استعمال کا آغاز سب سے پہلے کھاد سیکٹر میں کیا گیا۔ کم حرارت والی گیس کے بڑے ذخائر ماڑی، کندھکوٹ، قادرپور اور اوچ میں ہیں۔ قادرپور 1995سے سلفر کی زائد مقدار اور کم حرارت والی گیس کا سب سے بڑا ذخیرہ رہا ہے جو اب انحطاط پذیر ہے۔ قادرپور گیس فیلڈ سے پیداوار کا آغاز 1995میں ہواتھا۔ ہم نے اپنے ویژن کی بدولت اس ضائع کی جانے والی گیس کو جدت اور انجینئرنگ کی مہارت اور خدشات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کے اظہار کا موقع سمجھا اور 2002ءپالیسی کے تحت پاور جنریشن کے شعبہ میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا۔ 2005ءمیں اینگرو نے حکومت کو فلیئرڈ گیس پاور پراجیکٹ کی تجویز پیش کی۔ پرمیٹ گیس اینگرو کو ایوارڈ کی گئی جس کو بجلی پیدا کرنے کے لیے بھرپور طریقے سے بروئے کار لانے کے لئے 9-E ٹیکنالوجی اختیار کی گئی۔ ای پی کیو ایل نے 217 میگاواٹ کا پاور پلانٹ نصب کیا جس نے 2010میں بجلی کی کمرشل پیداوار کا آغاز کیا۔اب قادرپور میں پرمیٹ گیس اب ختم ہورہی ہے۔ اپنی انتہا پر یہاں سے یومیہ 600ایم ایم سی ایف ڈی گیس مہیا ہوتی تھی جبکہ اس وقت یہ پیداوار 200ایم ایم ایس سی ایف ڈی پر آچکی ہے جس میں مزید کمی کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ای پی کیو ایل پراجیکٹ کی بات کی جائے تو اس پراجیکٹ کو ملنے والی کم حرارت والی گیس کے ذخائر مستقبل قریب میں اس حد تک کم ہوجائیں گے کہ پلانٹ کوچلانا ممکن نہیں رہے گا۔ تاہم اس پلانٹ کو ہائی سپیڈ ڈیزل، آر ایل این جی یا دیگر متبادل ایندھن اور کم حرارت والی گیس کے امتزاج سے بھی چلایا جاسکتا ہے۔ متبادل ایندھن کا استعمال مثالی طور پر سستا اور ماحول دوست طریقہ ہوگا جس کے لیے ہم حکومت کے ساتھ کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ای پی کیو ایل کی زندگی 25 سال ہے لہذا پلانٹ مزید 13سال تک پیداوار دے گا۔ کرونا کی وبا کے چیلنجز کے باوجود ای پی کیو ایل ان مشکلات سے نمٹتے ہوئے انرجی سیکٹر میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے اپنے مشن پر کاربند ہے۔