اسلام آباد (نامہ نگار) پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی نے صدر، وزیراعظم، ججز، وفاقی وزرائ، بیوروکریٹس اور ارکان اسمبلی کی پیش کی گئیں مراعات کی تفصیلات کو مسترد کر دیا۔ جبکہ امریکی و برطانوی ارکان کانگریس کی پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا نوٹس لے لیا اور وزارت خارجہ کو امریکی اور برطانوی حکام کے ساتھ معاملہ اٹھانے سمیت ان ممالک کے ڈی جیز کو اگلے اجلاس میں وضاحت کیلئے طلب کر لیا۔ چیئرمین کمیٹی نے سیکرٹری خارجہ کی عدم شرکت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پرنسپل اکاﺅنٹنگ افسر نہیں آئے ہیں، کمیٹی میں جواب تو ان کو دینا ہے۔ جس پر سپیشل سیکرٹری خارجہ امور نے کہا کہ جواب دینے کیلئے ہم یہاں پر موجود ہیں۔ تاہم کمیٹی نے سیکرٹری کی عدم موجودگی کے باعث آڈٹ اعتراضات کا جائزہ نہ لینے کا فیصلہ کیا۔ اس موقع پر پی اے سی نے امریکی ارکان کانگریس کی پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی کوششوں کا نوٹس لیتے ہوئے وزارت خارجہ سے مداخلت کی کوششوں کی روک تھام کے بارے میں کئے جانے والے اقدامات کی تفصیلات طلب کر لی۔ چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ آج کل جو امریکہ کے ارکان کانگریس پاکستان میں مداخلت کرنا چاہتے ہیں اس کو روکنے کیلئے آپ نے کیا کیا ہے؟۔ ہمارے اداروں کے خلاف پروپیگنڈا ہو رہا ہے۔ امریکی اراکین کانگریس مداخلت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کی حکومت کو لیٹر بھیجنا ہے کہ آپ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں جو خط و کتابت ہوگی وہ ہمیں بتانا ہے، بہت سے لوگ ہمارے ملک میں مداخلت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نور عالم خان نے برطانیہ اور امریکہ کی پاکستان میں مداخلت پر اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا کہ امریکی کانگریس کو کیا حق حاصل ہے کہ اس کے عہدیدار پاکستان کے داخلی معاملات پر بیانات دیں۔ پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے، ہمارے اداروں کو بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ امریکہ برطانیہ سمیت سیکرٹری خارجہ دیگر متعلقہ ممالک کو اس بارے میں خطوط لکھیں اور خط و کتابت کا ریکارڈ کمیٹی میں پیش کیا جائے۔ پی اے سی نے بیرون ممالک سفارت خانوں کیلئے کرائے پر حاصل کی گئی عمارتوں کی تفصیل طلب کر لی۔ چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ کئی ممالک میں بہت زیادہ کرائے پر عمارتیں حاصل کی گئی ہیں۔ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں وزارت خارجہ کے مختلف سیکشنز کے ڈی جیز کو طلب کر لیا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ نیویارک میں ایک گھر ایک بندے کے لئے رکھا ہے۔ انہوں نے وزارت خارجہ کے سپیشل سیکرٹری سے استفسار کیا کہ منیر اکرم کا گھر آپ نے دیکھا ہے۔ جس پر وزارت خارجہ کے حکام نے بتایا کہ یہ گھر پاکستان کو گفٹ کیا گیا ہے، وہاں دو تین لوگ رہ سکتے ہیں، یہ ایک قسم کا بڑا محل ہے ۔ اجلاس کے دوران صدر، وزیراعظم، ججز، وفاقی وزرائ، بیوروکریٹس اور ارکان اسمبلی کی مراعات کی تفصیلات کمیٹی میں پیش کی گئیں۔ چیئرمین کمیٹی نے تفصیلات کو نامکمل قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔ چیئرمین کمیٹی نور عالم خان نے مراعات کی تفصیلات پڑھ کر سنائیں اور کہا کہ انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان کو ملنے والی تنخواہ اور مراعات کی تفصیل پی اے سی میں آڈٹ کی دستاویزات پڑھتے ہوئے بتایا کہ چیف جسٹس کی تنخواہ 15 لاکھ 27 ہزار 399 روپے ہے۔ چیف جسٹس کو سرکاری گھر اور ایک بلٹ پروف گاڑی ملتی ہے۔ اس کے علاوہ 1800 سی سی کی ایک سرکاری گاڑی الگ بھی ملتی ہے۔ چیف جسٹس کو 600 لٹر پٹرول، لامحدود یوٹیلیٹی سہولیات ملتی ہیں، اسی طرح ہاﺅس رینٹ کی مد میں 98 ہزار روپے ماہانہ ملتے ہیں، یومیہ 8 ہزار روپے ڈی اے ملتا ہے۔ نور عالم خان نے کہا کہ مجھے بطور چیئرمین پی اے سی صرف 1 لاکھ 87 ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے۔ جج کی تنخواہ بھی پندرہ لاکھ روپے سے زائد ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ نادرا کے ادارے این ٹی ایل کا آڈٹ کیا ہے؟۔ جس پر آڈٹ حکام نے بتایا کہ ہم نے کوشش کی تھی مگر ریکارڈ نہ مل سکا اور نان پروڈکشن آف ریکارڈ کا پیرا بنا ہوا ہے۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ نادرا کا آڈٹ ہر حال میں ہوگا۔ ہم نے تمام افسروں کی ٹریول ہسٹری دیکھنی ہے، ہم نے سنا ہے کہ ایک ایک افسر دوروں پر ایک ہزار ڈالر بطور ٹی اے ڈی اے وصول کرتا ہے۔ جس پر آڈٹ نے بتایا کہ یہ ادارہ حسابات پیش کرنے سے انکار کر رہا ہے۔ پی اے سی نے ایف آئی اے اور آڈٹ کے حکام پر مشتمل ٹیم نادرا بھجوانے کی ہدایت کر دی اور کہا کہ نادرا اور این ٹی ایل کے چار سالوں کے سفری اخراجات کی تفصیلات کمیٹی میں پیش کی جائیں۔ کمیٹی نے افغانستان، امریکہ، بھارت، وسط ایشیائی ممالک اور چین سمیت تمام اہم ممالک بشمول پی۔فائیو ممالک سے تعلقات پر بریفنگ کے لئے وزارت خارجہ کے تمام متعلقہ ڈائریکٹر جنرلز کو آئندہ اجلاس میں طلب کر لیا۔ سندھ طاس معاہدے کے حوالہ سے بھارتی خط اور اس کے مطالبے سے متعلق کمیٹی کو بریفنگ دی جائے۔
پی اے سی