اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس ارباب محمد طاہر نے پی ٹی آئی رہنما شہریار آفریدی کی اہلیہ کو رہا کرنے کا حکم سنا دیا۔ شہریار آفریدی کی اہلیہ کو سخت سکیورٹی میں عدالت پیش کردیا گیا۔ اس موقع پر انسپکٹر جنرل آف پولیس اسلام آباد ڈاکٹر ناصر اکبر بھی عدالت پیش ہوئے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے، انہوں نے کیا کیا، کیوں گرفتار کیا گیا ہے۔ جس پر آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ معلومات کے مطابق یہ اور ان کے شوہر جی ایچ کیو حملہ میں ملوث ہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ لیڈیز بھی کیا؟۔ جس پر آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ جی لیڈیز بھی۔ عدالت نے استفسار کیا کہ تھری ایم پی او کیا ہے؟۔ جس پر آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ پبلک آرڈر ہوتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ کہاں ہے وہ سورس اور وہ آرڈر، ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ آپ ملزم کو گرفتار نہ کریں، لیکن یہ ایک ہاو¿س وائف ہیں۔ جس پر آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ ہم ماو¿ں بہنوں کی عزت کرتے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ سوشل میڈیا کیا آپ دیکھتے ہیں؟، ڈپٹی کمشنر کہاں ہیں۔ جس پر وکیل نے بتایا کہ وہ دوسری عدالت میں شائد موجود ہیں۔ عدالت نے کہا کہ پانچ منٹ میں ڈی سی کو کہیں یہاں ہوں ورنہ ان کے لئے مسئلہ ہوگا، یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ، یہ لیڈیز ہیں، ان کے چار بچے ہیں، ہم تو ان کو آج رہا کریں گے، اس طرح نہیں ہوتا، یہ عدالت جس کو رہا کرے اس کو دوسرے چکروں میں اگر گرفتار کیا تو اس کے نتائج ہوں گے، ڈی سی کو کہیں فوراً اس عدالت میں پہنچیں، انہیں کال کریں۔ شہریار آفریدی کے وکیل نے کہا کہ ڈی سی سے پوچھا جائے ایس ایچ او کیسے تھری ایم پی او لگانے لگے ہیں۔ جسٹس ارباب محمد طاہر نے کہا کہ ہم نے انہیں بلایا ہے، دیکھ لیتے ہیں۔ وکیل نے کہا کہ معذرت کے ساتھ یہ عدالتوں کے آرڈر جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ جسٹس ارباب محمد طاہر نے کہا کہ ہماری اس عدالت کا کوئی آرڈر ایسے نہیں ہوگا، آئی جی صاحب میں آپ کو بتا رہا ہوں، خلاف ورزی اگر کی گئی تو سخت کارروائی ہوگی، یہ عدالت جو آرڈر کرے گی اس پر عمل درآمد ہوگا۔ اگر گڑ بڑ ہوئی تو آئی جی ٹھیک نہیں ہوگا۔ وکیل نے کہا کہ شہریار آفریدی کی اہلیہ کی کوئی غلطی نہیں ہے۔ عدالت نے شہریار آفریدی کی اہلیہ کو روسٹرم پر بلا لیا اور استفسار کیا کہ آپ کچھ کہنا چاہتی ہیں کیا؟، جس پر شہریار آفریدی کی اہلیہ نے کہا کہ جی میرا کوئی سوشل اکاو¿نٹ نہیں ہے۔ عدالت نے کہا کہ ڈی سی کہاں ہیں، کیا عدالت ڈی سی کا انتظار کرے گی، ڈی سی کا انتظار کورٹ نہیں کرے گی، جس پر سرکاری وکیل نے کہا کہ ڈی سی صاحب پہنچ رہے ہیں، وکیل نے کہا کہ ہم بیان حلفی دے دیتے ہیں، انہیں رہا کریں۔ جسٹس ارباب محمد طاہر نے کہا کہ آئی جی صاحب آپ اپنی لیگل ٹیم سے مشورہ کرکے کارروائی کیا کریں، آئی جی صاحب گڈ ٹو سی یو لیکن اس کیس میں نہیں کہیں گے، گڈ ٹو سی یو کہنا چاہتا تھا لیکن اس کیس میں نہیں کہوں گا، کچھ بھی ہو آپ کو بتا رہے ہیں ٹھیک نہیں ہورہا، کوئی کمپرومائز نہیں ہوگا۔ جو ملوث ہوگا اسے سزا دیں، جو اثاثے جلائے گئے وہ پاکستان کے اثاثے ہیں، ہمارے اثاثے ہیں لیکن عورتوں کو ایسے نہ پکڑا جائے، قانون پر عمل درآمد ہوگا۔ وکیل نے کہا کہ نہ ان کے پاس کوئی تفتیش ہے نہ کسی علاقے میں مقدمہ درج ہوا ہے، جی ایچ کیو تو پنڈی میں ہے اسلام آباد پولیس کی تو حدود ہی نہیں بنتی۔ دوران سماعت شہریار آفریدی کے خلاف دو کیسز کی لسٹ عدالت میں پیش کردی گئی، جس کے مطابق تھانہ آبپارہ اور انڈسٹریل ایریا میں مقدمات درج ہیں۔ آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ گھریلو خواتین نے اپنے شوہر بھی قتل کئے ہیں، گھریلو خواتین کچھ اور سرگرمیوں میں ملوث ہوسکتی ہیں۔ عدالت نے کہا کہ آئی جی صاحب کو ہم جانے دیتے ہیں، ڈی سی کو سن لیتے ہیں، فہرست جمع کرائیں کون سے اور کیسز ہیں، ایک چیز یاد رکھیں کہ ہماری عدالت سے رہائی کے بعد کسی کو گرفتار کیا گیا تو بہت مسئلہ ہوگا، کیا سورس انفارمیشن کی بنیاد پر سولہ ایم پی او لگایا جاسکتا ہے؟، ہماری عدالت کے حکم کی خلاف ورزی ہوئی تو سخت نتائج ہوں گے، آپ قانونی کارروائی کریں لیکن یہ کیا کہ آپ نے گھریلو خاتون کو ہی گرفتار کرلیا، ہم شہریار آفریدی کی اہلیہ کا بیان حلفی لے کر انہیں رہا کر رہے ہیں۔ عدالت نے شہریار آفریدی کی اہلیہ کو ڈی سی کے آنے تک کمرہ عدالت میں بیٹھنے کی ہدایت کی۔ بعد ازاں ڈپٹی کمشنر اسلام آباد عرفان میمن عدالت پیش ہوگئے اور تھری ایم پی او کے آرڈر پیش کر دیئے۔ عدالت نے کہا کہ آپ ڈی سی کوئٹہ بھی رہے جب میں ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان تھا، میں کوئٹہ بھی رہا، قانون سب جگہ ایک ہے، یہ ہمارے افسر ہیں، انہیں اچھے کا پتہ ہوتا ہے، سروس ریکارڈ اچھا رکھنا چاہیے، اسی وجہ سے آپ کی عزت ہوگی، لیگل اسسٹنس لے کر آرڈر کیا کریں، آپ جس کو پکڑتے ہیں اس کی شورٹی بھی آپ لے سکتے، آپ قانون کو دیکھیں، سب کی عزت و احترام کو ملحوظ خاطر رکھیں۔ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے کہا کہ جو انفارمیشن تھی اسی بنیاد پر گرفتاری کی گئی، سپیشل برانچ کی رپورٹ پر گرفتاری کی گئی۔ عدالت نے کہا کہ رپورٹ جو بھی ہو آپ خود بھی قانون کو دیکھیں۔ وکیل نے کہا کہ خاتون کو گرفتار کیا گیا، انہیں ہمارے حوالہ کیا جائے۔ جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کے حوالہ کیوں کریں، اس پر کمرہ عدالت میں قہقہہ لگ گیا۔