صدر مملکت کی غیر ملکی سفیروں سے بنا بتائے ملاقاتوں پر عطا تارڑ برہم
جب صدر مملکت دفتر خارجہ کو بنا بتائے غیر ملکی سفیروں سے ملیں گے تو غلط فہمیاں پیدا ہوں گی اور وزیر اعظم کے مشیروں میں تشویش کی لہر بھی دوڑے گی۔ ویسے بھی صدر مملکت نے اپنے بیانات اور طرزِ عمل سے ابھی تک تو یہی ثابت کیا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے پکے اور سچے کھلاڑی ہیں۔ ان کی اپنے کپتان سے کمٹمنٹ پکی ہے۔ وہ اس پْرجوش محبت میں یہ بات فراموش کر رہے ہیں کہ وہ صدر مملکت بھی ہیں جو آئینی طور پر پورے ملک کا سربراہ ہوتا ہے کسی پارٹی یا طبقے کا نہیں۔ اپنے کپتان کو غلط سٹروک کھیلنے پر منع کرنے کی بجائے وہ حکومت پر آئو دیکھا نہ تائو برس پڑتے ہیں۔ حالانکہ ان کا کام افراط و تفریظ کے اس ماحول میں متوازن کردار ادا کرنا ہے۔ مگر وہ ’’میں کھلاڑی تو اناڑی‘‘ کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ اس پر وزیر اعظم کے مشیر عطا تارڑ تو برہم ہوں گے۔ آخر وہ یہ سب کچھ ہوتا دیکھ کر کب تک چپ رہ سکتے ہیں۔ آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ صدر مملکت حکومت کی بجائے اپوزیشن رہنما?ں کی بلائیں لیتے پھریں۔ ان کے در دولت پر حاضری کو اپنی خوش بختی قرار دیں۔ یہ تو خود صدر کے عہدے کے وقار کے منافی ہے اب صدر مملکت جن غیر ملکی سفیروں سے بنا وزارت خارجہ کو آگاہ کئے مل رہے ہیں حکمرانوں کا خدشہ ہے کہ وہ ان سے بھی حکومت کی برائیاں کرتے اور اپنے ممدوح کپتان کی تعریفوں کے پل باندھتے ہوں گے۔ اس کا غلط اثر ہو سکتا ہے۔ اس پر تو عطا تارڑ یہی کہہ سکتے ہیں۔
گل پھینکنے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی
٭٭٭٭
چین میں فوج کے خلا ف لطیفے سنانے والے کو 60 کروڑ روپے جرمانہ
اب کیا فرماتے ہیں سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی برپا کرنے والے نام نہاد دانشور اور میڈیا چینلز پر سقراط اور بقراط بن کر فلسفے کی ایسی تیسی کرنے والے دیدہ ور۔سیاسی رہنمائوں کی بات اس لیے نہیں کرتے کہ ان کا تو کام ہے چور ن بیچنا وہ تو اپنی دکان چلانے کے لئے جو منہ میں آئے کہتے ہیں اور بعد میں اس پر یوٹرن لیتے ہوئے ذرا بھر بھی نہیں شرماتے۔ کئی بہادر لیڈر تو دن کو گالیاں دیتے ہیں رات کو جا کر معافیاں مانگتے بھی پائے گئے ہیں۔ دنیا بھر میں بعض معاملات اور مقامات ایسے ہوتے ہیں جن کے بارے میں ناروا بات کرنا یا ان پر حملہ کرنا جرم سمجھا جاتا ہے۔ اب چین میں جو ہوا اس پر کوئی دانشور ی بگارتے ہوئے یہ نہ کہے کہ یہ سوشلسٹ ملکوں کا سخت نظام ہے جہاں لطیفہ سنانے پر بھی بھاری جرمانہ ہوا۔ ابھی ماضی قریب میں ہی ایک سال قبل امریکی سابق صدر ٹرمپ کے بپھرے ہوئے حامیوں نے جس طرح وائٹ ہائوس پر دھاوا بھولا۔ وہاں توڑ پھوڑ کی اس کے بعد جو ایکشن ہوا اس کی سزا ابھی تک ٹرمپ ان کی پارٹی اور ان کے بدمست حواری بھگت رہے ہیں عدالتوں میں رْل رہے ہیں سزائیں پا رہے ہیں۔ امریکہ تو جمہوری ملک ہے وہاں بھی یہ کچھ ہو رہا ہے تو اب پاکستان میں جو گمراہ عناصر توڑ پھوڑ اور جلائو گھیرائومیں ملوث ہیں ان کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے۔ چین میں جس مسخرے نے فوج کیخلاف لطیفہے سنائے اسکو 60 کروڑ روپے کا جرمانہ ہوا ہے۔ اگر ہمارے ہاں بھی سزا کی بجائے صرف بھاری جرمانے ایسے عناصر سے وصول کئے جائیں تو خالی خزانے کو بھرا جا سکتا ہے جس کی حالت آج کل بہت پتلی ہے۔
٭٭٭٭
کراچی۔ خاتون کے ہاتھ جوڑنے پر ڈاکوئوں نے چھینا پریس واپس کر دیا
ضروری نہیں کہ اچھے لوگ صرف خانقاہوں میں حجروں میں ہی ملتے ہوں۔ بہت سے نایاب لوگ گڈ ری کے لعل کی طرح ہمارے اردگرد راندہ درگاہ قسم کی حالت میں بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ حساس دل بھی بڑی نعمت ہے جس کے پاس ہے وہ واقعی دل والا ہوتا ہے۔ روایت ہے بڑوں سے سنا بھی اور پڑھا بھی ہے کہ رحمت خداوندی ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جن کے دل چڑیا کے دل کی طرح نرم ہوتے ہیں (مفہوم) یہ تو حالات کا جبر ہے کہ کوئی دل والا مجرم بن جاتا ہے۔ ماضی میں مرحوم عبدالستار ایدھی کو لوٹنے والے ڈاکوئوں کو جب پتہ چلا کہ بزرگ کون ہیں تو انہوں نے روتے ہوئے معافیاں مانگی اور سارا سامان واپس کیا کہ مرنے کے بعد ہمارا کفن دفن یہی تو کرتے ہیں۔ اس کے بعد ایک پیزا ڈلیوری بوائے کو لٹنے کے بعد روتا دیکھ کر ڈاکوئوں کے جذبہ ترحم نے جوش کھایا اور انہوں نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے رقم واپس کر دی۔ گزشتہ روز بھی کراچی میں ایک خاتون کو جو اپنے بچے کے ہمراہ جا رہی تھی راستے میں ڈاکوئوں نے روک کر اس کا پرس چھینا تو اس خاتون نے روتے ہوئے گڑگڑاتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر اپنی مجبوریاں بتائیں تو ان ڈاکوئوں نے چشم پرنم کے ساتھ وہ پرس واپس کر دیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حالات و واقعات کی مجبوری انسان کو مجرم بناتی ہے۔ ماں کے شکم سے کوئی مجرم پیدا نہیں ہوتا۔ یہ ریاستوں کا حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ ایسے حالات پیدا ہونے نہ دیں، حقدار کو اس کا حق پہنچائیں ، بھوکوں کو کھانا، بیروزگاروں کو روزگار فراہم کریں تاکہ کسی کو گھر والوں کے لیے کھانا، بیماروں کے لیے دوا، گھر کا کرایہ ، بچوں کی فیس، عید کے کپڑے خریدنے کیلئے ڈاکو یا چور نہ بننا پڑے۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی مال و دولت کی حرص میں ڈاکہ ڈالتا ہے یا چوری کرتا ہے تو پھر اسے اس کی سخت ترین سزا دے کر ایسے عناصر کو نکیل ڈالی جائے۔
٭٭٭٭
احتجاج اور اظہار رائے پْرامن طریقے سے ہونا چاہئے: امریکی ترجمان
بے شک احتجاج اور ہنگامہ آرائی میں فرق ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے ورنہ بدترین حادثات اور سانحات رونما ہوتے ہیں۔ اظہار رائے کی آزادی بھی برحق ہے مگر اس کی آڑ میں دوسروں پر دشنام طرازی اور ہنگامہ آرائی کی اجازت بھی کسی کو نہیں دی جا سکتی۔ یہ سب کہتے ہیں مگر مانتا کوئی نہیں۔ گزشتہ ہفتے پاکستان کی تاریخ میں جو سیاہ ابواب رقم ہوئے اس کا اندازہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جو آج بھی اپنی عقیدت اور محبت کا مرکز کسی سیاسی جماعت کو نہیں کسی سیاسی لیڈر کو نہیں صرف اور صرف پاکستان کو مانتے ہیں اور اس کی طرف بڑھنے والے ہر ہاتھ کو کاٹنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ اس کے باوجود کچھ گمراہ عناصر نجانے کیوں آج بھی وطن عزیز سے زیادہ اپنے خیالی دیوتاؤں کی پرستش کرتے ہیں حالانکہ ایسا ہی کرنا ہے تو پھر مادر وطن سے زیادہ کون بہتر ہے جس کی توصیف کی جائے۔ مگر کچھ لوگ احتجاج کے نام پر گزشتہ ایک برس سے جو تماشہ لگائے ہوئے ہیں وہ سب کے سامنے ہے۔ توڑ پھوڑ جلا ؤ گھیرا ؤان کا خاصہ بن چکا ہے، کئی غیر ملکی ادارے بھی اظہار رائے کی آزادی اور احتجاج کے حق کے نام پر ان کے حمایتی ہیں ۔آج کل امریکہ کو بھی عمران خان اور پی ٹی آئی والوں پر بہت پیار آرہا تھا۔ اب امریکی ترجمان برائے خارجہ امور نے بھی اعتدال کی راہ پر عمل کرتے ہوئے پْرامن احتجاج کا مشورہ دیا ہے۔اور درجنوں امریکی ایوان نمایندگان کے ارکان نے بھی احتجاج کرنے والوں سے ہمدردی جتاء ہے۔ لگتا ہے پی ٹی آئی نے جن لابنگ فرموں کو امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات دوبارہ استوار کرنے کے لئے بھاری رقم دے کر ہائیر کیا تھا شاید وہ مقررہ ہدف حاصل کر رہی ہیں۔ اسی وجہ سے امریکی لہجہ بدلا ہوا ہے۔ تاریخ پر نگاہ رکھنے والے جانتے ہیں کہ انکل ٹام ہو یا سفید ہاتھی یہ صرف اور صرف اپنے مفادات کے غلام ہیں۔ انہیں جہاں دلچسپی ہو وہاں آمریت بھی ان کو قبول ہوتی ہے۔ جہاں دلچسپی نہ ہو وہاں جمہوری حکومتوں کا تختہ اْلٹنے میں ذرا بھر بھی تاخیر نہیں کرتے۔
جمعۃ المبارک‘ 28 شوال 1444ھ‘ 19 مئی 2023ء
May 19, 2023