آئی ایم ایف کی ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام محدود مالی وسائل کے باعث ’ناقابل برداشت‘ ہو گیا ہے کیوں کہ موجودہ منظور شدہ منصوبوں کے لاگت میں اضافے سے پہلے مکمل ہونے میں ڈیڑھ دہائی لگ سکتی ہے، لہٰذا اسے جاری رکھنا دشوار ثابت ہو گا۔ رپورٹ میں شدید مالیاتی رکاوٹوں اور نامکمل پراجیکٹس کے بہت بڑے بیک لاگ کے باوجود رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے گزشتہ بجٹ میں کل لاگت 2.3 ٹریلین روپے کے نئے منصوبے شامل کئے گئے۔ رواں سال کے دوران سیلاب سے نمٹنے کے اقدامات کیلئے مالی گنجائش پیدا کرنے کی ضرورت کی وجہ سے مالیاتی دباؤ مزید بڑھ گیا۔
جب پاکستان آئی ایم ایف کی تمام شرائط من وعن پوری کر چکا ہے‘ عوامی مشکلات کے باوجود حکومت نے پیشگی اقدامات کرکے اسے مطمئن کردیا اور دوست ممالک کے تعاون کی بھی یقین دہانی کرادی گئی ہے‘ اسکے باوجود آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ سٹاف لیول معاہدے پر آمادہ نہیں ہو رہا۔ حکومت عوامی ریلیف کا جو بھی فیصلہ کرتی ہے‘ اسکی طرف سے مسترد کر دیا جاتا ہے۔ اب اس نے سی پیک سے جڑے عوامی مفاد کے ترقیاتی منصوبے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) پر اٹھنے والے اخراجات پر بھی اعتراض اٹھا دیا ہے تو اس سے بخوبی اندازہ ہو چکا ہے کہ آئی ایم ایف کو اپنے قرض کی ادائیگی سے نہیں بلکہ پاکستان کے ترقیاتی منصوبوں سے تکلیف ہو رہی ہے جو اس کا مخصوص ایجنڈا بھی نظر آتا ہے۔ اب چونکہ آئی ایم ایف کا خبث باطن کھل کر سامنے آچکا ہے‘ وہ پاکستان کے مفاد میں کئے گئے حکومتی فیصلوں کو بھی مسترد کر رہا ہے تو ضروری ہو گیا ہے کہ اس سے بہرصورت چھٹکارا پانے کا راستہ تلاش کیا جائے۔ قرض دینے والے کو اپنے قرض کی واپسی سے سروکار ہونا چاہیے‘ یہ قرض دہندہ کا مسئلہ ہے کہ وہ قرض کی رقم بروقت کیسے واپس کریگا۔ مگر آئی ایم ایف نے اپنے قرض کی وصولی کیلئے باقاعدہ پاکستان کے ہر معاملے میں مداخلت کرنا شروع کر دی ہے جبکہ ہمارے حکمران بھی اسکی ہر خواہش اور منشاء کے آگے سرتسلیم خم کئے نظر آرہے ہیں جس سے اسکے حوصلے مزید بلند ہو رہے ہیں اور اسکے ڈومور کے تقاضے ہیں جو کہیں تھمنے میں نہیں آرہے۔ اب چونکہ آئی ایم ایف کے تھیلے سے بلی باہر آچکی ہے اس لئے بہتر ہے کہ اس سے خلاصی کی کوئی ٹھوس حکمت عملی اپنائی جائے‘ ورنہ جب تک پاکستان اسکے شکنجے میں رہے گا‘ ملک و قوم کی ترقی کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو پائے گا۔
آئی ایم ایف : بلی تھیلے سے باہر آگئی
May 19, 2023