یہ مہذب دنیا کے ہنگاموں سے دور صحرا کی وسعتوں میں آباد ایک گمنام شہرکی کہانی ہے، یہ شہراوراس کے مکین بھی باقی دنیاسے منفرد تھے، ایک تو چاروں جانب نفسا نفسی کا عالم تھا، دوسرے خود غرضی کے سبب انھیں اپنے شہر سے کوئی محبت ہی نہ تھی۔ بارش ہو یاآندھی آئے، انھیں اس سے کوئی علاقہ ہی نہ تھا، بہ قول احمدمشتاق:
موسم ِگل ہوکہ پت جھڑ ہو بلاسے اپنی
ہم کہ شامل ہیں نہ کھلنے میں نہ مرجھانے میں
ان کی عادات واطوار کودیکھتے ہوئے یہاں کے قوانین بھی باقی دنیاسے جدابنائے گئے تھے۔ یہاں کسی بھی قسم کا کام کرنے کی سخت ممانعت تھی۔ ایک نادرشاہی حکم جاری کیا گیا تھاکہ ہمہ وقت گلیوں، محلوں، چوراہوں، پارکوں، میدانوں میں ’’توتو میں میں‘‘ کا کھیل کھیلا جائے۔اس کھیل میں ہمہ وقت ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا ہوتا تھا، اس حکم کی تعمیل کیلئے تمام بچے، بڑے، بزرگ شہرکے مختلف میدانوں میں اکٹھے ہوتے اور چراغ جلے تک ’’توتومیں میں‘‘ کھیلتے۔ ایک دوسرے پرجی بھرکے طعن وتشنیع کی بارش کرتے۔ عورتیں بھی صبح ہوتے ہی اپنے اپنے گھروں کے باہر بنے تھڑوں پرآمنے سامنے آکربیٹھ جاتیں، ایک کہتی: ’’آ ری پڑوسن! لڑیں۔‘‘ دوسری جواب دیتی’’لڑتی ہے میری جوتی‘‘۔ اس کے بعد طعنوں تشنوں اور گالم گلوچ کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ یوں خواتین کا ’’توتومیں میں ’’کھیلنے کا شوق گلی محلے میں ہی پورا ہو جاتا۔ اس سے قبل یہی قانون تھا اوراسی طرح سے یہاں کی زندگی بڑے پرسکون طریقے سے گزررہی تھی۔ یہ صورتحال کئی سال تک برقرار رہی۔ ایک روز شہرکی اشرافیہ ہال میں اکٹھی ہوئی، اس نے فیصلہ کیا کہ بس بہت ہوچکی، اب ضروری ہے کہ کچھ پابندیاں ہٹاکر اہل شہر کو کچھ نئے کھیلوں سے متعارف کروایا جائے، بات کے حق یامخالفت میں بحث مباحثہ ہوا، سخت ردو قدح کے بعد پابندیاں اٹھا لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ مختلف علاقوں میں پیغام بھیجے گئے کہ اب آپ پرکسی بھی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے، جوآپ کا جی چاہے کرسکتے ہیں۔ ہرطرح کی آزادی ہے۔ مختلف ذرائع سے یہ پیغام شہرکے مکینوں تک پہنچایا گیا۔ ’’لوگو! سنو، اب کسی بھی قسم کی پابندی نہیں ہے‘‘ چاروں جانب آوازے لگائے گئے۔شہرکے مکینوں نے ان اعلانات کی طرف توجہ ہی نہ دی اوراپنا کھیل کھیلنے میں مصروف رہے۔ گویا انھیں اس قسم کے اعلانات سے کوئی دلچسپی ہی نہ تھی۔ ڈھنڈورچی یہ سمجھے کہ شاید ان کی بات کسی کی سمجھ میں نہیں آئی۔ دوسری بار اعلانات کو ذرا اونچی آواز میں دہرایا گیا۔ ’’لوگو! شایدتم سمجھے نہیں، اب تمھیں ہر طرح کی آزادی ہے، جو چاہو کر سکتے ہو، اب کسی بھی چیز کی ممانعت نہیں‘‘۔ ’’اچھا اچھا، ٹھیک ہے لیکن ابھی ہم اپنا پسندیدہ کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں‘‘۔ پیغام پہنچانے والوں نے شہریوں کو ایک دفعہ پھر سے انکے وہ کارنامے یا د دلائے جواس سے پہلے وہ انجام دیاکرتے تھے۔ اس کے باوجود لوگوں نے انکی باتوں کو بڑی بے رغبتی کے ساتھ سنا اور اپنا کام کرنے میں مصروف رہے۔ سخت پیغامات کا بھی ان پرکوئی اثر نہ ہوا، قاصدوں نے جاکر فیصلہ کرنے والے لوگوں کو اصل صورت حال سے آگاہ کیا۔ اشرافیہ نے سوچ بچار کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ عوام کے اس پسندیدہ کھیل پر پابندی لگادی جائے تاکہ دیگر کاموں کے بروقت ثمرات سمیٹے جاسکیں۔ ایک حکم نامے کے تحت عوام کے اس پسندیدہ کھیل پرپابندی لگادی گئی۔ پابندی کا حکم سنتے ہی عوام نے بغاوت کردی ،شہرمیں خوب توڑ پھوڑ کی اوراس کے بعدوقت ضائع کیے بغیر واپس آئے اور اپنا پسندیدہ کھیل ’’توتو میں میں‘‘ کھیلنے میں مصروف ہوگئے۔ انھیں شہرکے فائدے یا نقصان سے جیسے کوئی غرض ہی نہ تھی۔ یہ ایک اطالوی لوک کہانی کی اردو میں ترجمانی کی گئی ہے،اس سے ایک نتیجہ بہرحال نکالا جاسکتا ہے کہ جب حکمران طبقے کوعوامی مسائل سے دلچسپی نہ رہے توعوام بھی اپنے مشاغل میں ایسے مصروف ہوجاتے ہیں کہ انھیں کسی چیز کی پروا نہیں رہتی۔ برصغیر کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ برصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا سامنا عوام کے تین طبقات سے ہوا، پہلا وہ طبقہ جس نے انگریز استعمار کے جارحانہ عزائم کے خلاف بھرپور مزاحمت کی تھی، دوسرا طبقہ ان کا اتحادی بن گیا تھا اور اکثریت اس تیسرے طبقے کی تھی جو ’’تیل دیکھو؛ تیل کی دھاردیکھو‘‘ کاروغن عیاری چہرے پر لیپ کر بظاہر غیرجانب دار رہا۔ مغلیہ سلطنت میں بھی ایرانی اور تورانی گروپوں کی صورت میں پریشرگروپ تھے، معاشی اور معاشرتی صورتحال دگرگوں تھی، معززین شہر کا حال ابتر تھا۔ عوام الناس کی اکثریت کو اس بات سے کوئی غرض نہ تھی کہ پاک وہندکا تخت ایک پکے ہوئے پھل کی طرح کس کی جھولی میں آکرگرتا ہے۔ اس صورتحال میں غیرجانب دار طبقہ اپنی بے حسی اور لاتعلقی کی وجہ سے مجرم سمجھا جائیگا، اگر یہ بھی مزاحمت کرتا تو آج کے برصغیر کی تاریخ مختلف ہوتی۔ پاکستان کے قیام کے پس منظرمیں ایک خاص نظریہ تھا۔ اس مملکت کا دنیاکے نقشے پر ابھرنا، ایک ایسا سحرآگیں تجربہ تھا جس کے اثرات ہمیشہ محسوس کیے جاتے رہیں گے، ابتدا میں انتہائی کسمپرسی کے عالم میں بھی یہ قوم ایک سنہرے خواب کی تعبیرکے لیے سرگرم عمل تھی، لیکن کیا کریں انجانے چہرے، اجنبی شکلیں اچانک کہیں سے نمودار ہوئیں اور کارواں اپنے راستے سے بھٹک گیا۔ تحریک آزادی کے رہنما سردار عبدالرب نشترکا ایک شعر دیکھیے:
بس اسی واسطے چھینی گئی رہبری ہم سے
کہ ہم سے قافلے منزل پہ لٹوائے نہیں جاتے
1971ء میں پہلے آزادانہ انتخابات میں جمہوریت کو متعارف کروانے کی کوشش میں ملک دولخت کردیا گیا، اسکے بعد گھاس کھاکر بھی ایٹمی قوت بننے کا اعلان کیاگیا، قوم گھاس کھانے پر بھی آمادہ ہوگئی، 1998ء میں ایٹمی دھماکوں کے نتیجے میں اس قوم نے سخت پابندیوں کی مشکلات کو مہنگائی کی شکل میں برداشت کیا۔ اس قوم نے دہشت گردی کے خلاف نامعلوم جنگ میں قیمتی جان ومال کا نقصان بھی اٹھایا۔ تاریخ کے اشارات بتاتے ہیں کہ کولمبس کی اولاد سے بڑھ کر کوئی اور عالمی دہشت گرد نہیں۔ ہمارا بیانیہ بھی اسی دہشت گرد اور اس کے حواریوں کے مزاج کے عین مطابق تھا۔ آج پچھتر سال کے بعد عوام یہ سوال پوچھنے پرحق بجانب ہیں کہ اس جمہوریت کے عوام کوکیا ثمرات ملے؟ عوام کا عمل دخل تو صرف بیلٹ پیپر پر مہر لگانے تک محدود رہا جبکہ ان کے ووٹوں سے قائم ہونے والی حکومتیں قومی مفادسے انحراف کرکے اپنے اپنے مفادات کے لیے الجھی رہیں۔ امن اور انصاف مہیا کرنیوالے ادارے اپنے مقاصد کے حصول میں مکمل طورپر ناکام رہے۔ قائداعظم محمدعلی جناح نے پاکستان کو اسلام کی ایک تجربہ گاہ کے طورپرحاصل کیا تھا، افسوس کہ ہم نے اس وطن میں ہرپل ہرلمحے نامانوس تجربے کیے۔ کاش ہم اب بھی تاریخ سے سبق حاصل کرلیں، سقوط غرناطہ، سقوط دہلی، سقوط بغداد کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، سقوط ڈھاکہ کا سانحہ تو اہل عبرت کے لیے ماضیِ قریب کی ایک واضح نشانی ہے۔ حقیقی ترقی کے لیے عوامی مزاج اورمفا د کوپیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ بقول میر تقی میر:
دل وہ نگر نہیں کہ پھرآبادہوسکے
پچھتائو گے سنو ہویہ بستی اجاڑ کے
’’تُوتُو میَں مَیں‘‘ کھیلنے والوں کا شہر
May 19, 2023