کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے اس وقت بوجوہ علم و ادب کے روائتی مراکز کے ساتھ ساتھ مضافات کے قلم کاروں کا طوطی بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ مثال کے طور پر سرگودھا سے ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم نے کتابوں کے ڈھیر لگا دئے ہیں تو کنجاہ گجرات کے اکرم کنجاہی کی کتابی صورت میں ادبی خدمات کی قطار لمبی ہوتی جا رہی ہے۔غزل کے پانچ شعری مجموعہ جات اور تنقید کی 19 کتابوں کے علاوہ آٹھ سے زیادہ دوسرے حوالوں سے ان کی کتب سامنے آچکی ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ اب ان کی تحقیق و تنقید کی ایک اور کتاب معاصر پاکستانی غزل کے عنوان سے سامنے آئی ہے جس میں دور حاضر کے سات نمایاں اور مختلف لہجے اور سوچ کی حامل آوازوں کی تخلیقات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ رفیع الدین راز ، فیاض الحسن ناصر ، ڈاکٹر فرحت عباس ، یشب تمنا ، نوید صادق ، آفتاب خان اور آزاد حسین آزاد نے غزل میں عصری احساسات تنائو جبر اور طبقاتی کشمکش قنوطیت اور مزاہمت کے نئے انداز کو اپنے اپنے ہنر کے ساتھ جس طرح سمویا ہے اس کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے اکرم کنجاہی نے قارئین کے لئے مطالعہ کوآسان بنا دیا ہے۔ بلا شبہ وہ بیٹھے تو ادب کے ایک بڑے روائتی مرکزکراچی میں ہیں لیکن ان کی نگاہیں اردو غزل کی گلوب کے چاروں طرف پھیلتی کرنوں پر ہیں۔ اردو ادب کے لئے ان کی خدمات کا دائرہ جس طرح مسلسل پھیل رہا ہے اس پر اہل کنجاہ گجرات کا سر بھی فخر سے بلند ہو رہا ہے۔
٭…٭
پاکستان رائٹرزگلڈ پنجاب کے منٹگمری روڈآفس کی تقربات ہال میں محفل مشاعرہ کے انعقاد سے نئے دور کی سرگرمیوں کا آغاز ہو چکا ہے۔گرمیوں کی شدت اور پنجاب اسمبلی کے عقب میں ہونے کے باعث اورخاص طور پر نئی جمہوری آنکھ مچولی کے درمیان ارکان اسمبلی کی ضرورت سے زیاد ہ حفاظت کے باعث کچھ عرصہ سے گلڈ کے آفس میں اہل قلم ا ورخاص طور پر شاعروں کا بروقت پہنچ جانا ایک کرامت سے کم نہیں۔ پھربھی احبا ب پہنچے اور خوب پہنچے۔اعجاز فیروزاعجاز کی صدارت کا اعلان نذر بھنڈر نے حسب معمول اس انداز سے کیا کہ حاضرین کے ساتھ خود صدرکا چہرہ بھی کھل اٹھا۔اعجاز جی ہفت پہلو شخصیت کے مالک ہیں پولیس میں اعلے عہدے پر ہونے کے باوجود اپنی اصل پہجان ایک تخلیق کار کے طور پر کرواتے ہیں۔ شاعر ڈرامہ نگار اداکار ڈائریکٹر غرض کوزے میں دریا کی طرح ہیں۔ نذربھنڈربھی کم و بیش ایسے ہی ہیں۔ کچھ عرصہ ایک روزنامہ شائع کیا اب بزم وارث شاہ کیلئے خود کو وقف کئے ہوئے ہیں۔مشاعرے میں انہوں نے خوبصورت نعت پیش کی۔راقم نے پنجاب کے سیکرٹری کے طور پر ان اقدامات کا ذکر کیا جو گلڈ کے ماحول کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنانے کے لئے کئے جا رہے ہیں۔ گلڈٹرسٹ کی چیئرپرسن فرح جاوید نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ مشتے از خروارے ،چند اشعار۔
بیدار سرمدی
چاروں جانب صحرا ہے اور ایک دیا
دور افق تک جانا ہے اور ایک دیا
اوپر سورج ہے اورچاند ستارے ہیں
نیچے صرف اندھیرا ہے اور ایک دیا
اعجاز فیروز اعجاز
اپنوں کی بے رخی سے فراموش ہو گئے
کچھ لوگ اپنے آپ میں بے ہوش ہو گئے۔
رضی قریشی
رت بھی وفا کی بدلے ہوا کی طرح رضی
دل ہے خدا کا گھرکبھی اس کو نہ توڑنا
فریدہ خانم
روشنی بھر مولا تو خانم کے ہر اک لفظ میں
دہر میں سچائی کا شہکار ہو میرا قلم
٭…٭
گزشتہ دنوں علم اوادب کے ایک باوقار صحافتی گھرانے کے باوقار رکن سرمد حسنین جعفری مختصر علالت کے بعد خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان دنوں جب میں نے لاہور میں نوائے وقت میں آمد سے پہلے ہشت پہلو جناب اثر چوہان اور عاشق جعفری کے اخبار سیاست سے صحافتی زندگی کا آغازکیا تو کچھ عرصہ کے بعد دفترمیں دو پھول جیسے بچوں کو آتے جاتے دیکھا۔یہ 70کی دہائی کی ابتدا تھی۔ پیپلز پارٹی کے ترجمان روزنامہ مساوات کے ایڈیٹر اور غیر سرکاری ترجمان روزنامہ سیاست کے ایگزیکٹو ایڈیٹر عاشق جعفری کے یہ دونوں بچے ہمارے سامنے جوان ہوئے اور عملی زندگی میں ہر شعبے میں اپنا لوہا منوایا۔سرمد بڑے تھے۔ جواد جعفری چھوٹے ہیں اور قومی اخبارات میں کچھ وقت گزار کربزنس کی طرف آئے تو اپنی محنت اور صلاحیت سے کامیابی حاصل کی۔اب اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر پولیس میں ذمہ دارانہ عہدے پر ہیں۔ سرمد جعفری جزوی طور پر میرے ہم نام بھی تھے اس لئے بھی بہت اچھے لگتے تھے۔علم و ادب اور سول بیوروکریسی کے ایک بڑے نام سید فخرالدین بلے جو ڈی جی پی آر سے ڈی جی کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ، ان کی نظر اس جو ہر قابل پر پڑی تو مسلم لیگ ہا?س میں وزیر اعلیٰ غلام حیدر وائیں کے تجویز کردہ جریدے کی نوک پلک سنوارنے کے کام پر لگا دیا۔ سرمد نے صحافت اور آرٹ کی ورثے میں ملنے والی صلاحیت کی دولت کو کئی اداروں میں بانٹا۔کبھی اخبار حکومت ، کبھی شوبز میگزین ماہنامہ آئیڈیل فرینڈز" کبھی ہفت روزہ بچوں کا اخبار اور ہفت روزہ صراط تو کبھی ضیا شاہد مرحوم کے اخبارات روز نامہ صحافت اور دوپہر میں۔ راقم کے روزنامہ فرنٹ اور انکشاف کے لئے بھی گراں قدرخدمات انجام دیں لیکن ان کے اصل جوہر اپنے والد عاشق جعفری مرحوم کے اخبار روزنامہ آزادی کو اپنانے کے بعد کھلے۔ وہ تادم حیات روزنامہ آزادی کے ایڈیٹر اور روح رواں تھے۔۔ سرمد جعفری نے 2000ء میں مون مارکیٹ علامہ اقبال ٹا?ن لاہور سے روز نامہ آزادی کو نیا خ دیا اور ان کی شب وروز کی محنت علاقائی خبریں اشتہارات انٹرویوزاور مختلف افراد کے تعارف سے آزادی "تاجر برادری"کی آواز تو تھا ہی ایک صحیح معنوں میں ریجنل اخبار بن گیا اور کاروباری حلقوں میں "آزادی"کا ایک خاص مقام بن گیا۔ اپنے صحافتی شعبے سے ہٹ کر انہوں سوشل سروسز کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ جوانی کے عروج پر انہیں بلڈ پریشر اور گرد ے کے امراض نے گھیر لیا۔ نوبت ڈائلیسز تک پہنچی اور انہوں نے زندگی کے آخری دو سال صبر کے ساتھ یہ تکلیف دہ مرحلہ بھی طے کیا۔ ان کی بیگم نے جو ایک علمی ادارے کی سربراہ ہیں ، ان کا بہت ساتھ دیا۔سرمد بہت جلدی میں تھے اس لئے جلدی مولا کے پاس چلے گئے لیکن اپنے احباب کے دلوں میں انمٹ یادیں چھوڑ گئے ہیں۔
معاصر غزل،گلڈ تقریبات اور سرمدکی رحلت
May 19, 2024